ایک ایسے وقت میں جب مصر میں قومی دن منایا جا رہا ہے، یعنی انقلاب کا دن، تو مصری فوج ایک بار پھر عرب دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔
19 ویں صدی میں اپنی تشکیل کے بعد سے مصر کی فوج عرب ممالک میں سیاسی خیالات اور رجحانات کی قیادت کر رہی ہے۔ شاہی تخت و تاج کی حفاظت سمیت برطانوی و فرانسیسی اجارہ داری کے خلاف مزاحمت سے لے کر اخوان المسلمین کی حکومت ختم کرکے سیکولر ازم کی بحالی تک مصری فوج اب بھی عرب دنیا کی سیاسی شناخت کی بنیاد ہے۔
1952 میں جمال عبدالناصر کی قیادت میں فوج کے آزاد افسروں نے برطانوی فوجوں کو واپسی پر مجبور کیا اور عرب دنیا میں فوجی حکمرانی کے رجحان کی بنیاد رکھی۔ جمال عبدالناصر بابائے عرب قوم پرستی تھے۔ قوم پرستی نے عرب ممالک میں طاقت کے توازن کے لیے پائیدار مراکز کی بنیاد رکھی۔ یہ صورت حال 2003 میں عراق پر امریکی حملے تک برقرار رہی۔ افراتفری اور طاقتور نظریاتی تبدیلیوں سے پہنچنے والے نقصان کے باوجود مصر کی فوج کی صفوں میں ناصر ازم کی جڑیں اب بھی گہری ہیں۔
پورے مشرق وسطیٰ کی جدید تاریخ میں ہر بحران کے دوران مصری فوج نے رہنما کا کردار ادا کیا ہے۔ ایسے وقت میں جب عرب ممالک میں تمام شاہی حکومتیں کسی مینار کی طرح لرز رہی تھیں اور گہری مایوسی اور ناامیدی کا سبب بن رہی تھیں مصری فوج کے پاس اس بحران کا حل تھا۔ اس نے سیکولر نظریہ پیش کیا جس نے عرب علاقے میں نظم و ضبط پیدا کیا اور وفاداری کے دو نظریاتی نظام کو وجود بخشا، جس میں ایک طرف امریکہ اور دوسری طرف سابق سوویت یونین تھا۔
1967 میں چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں ذلت آمیز شکست کے بعد تمام عرب دنیا کی نظریں ایک بار پھر مصری فوج کی طرف مڑ گئیں۔ 1973 میں اسرائیل پر فتح کے بعد عرب عوام کی امید لوٹ آئی۔ 1970 میں جمال عبدالناصر کا انتقال ہو گیا جس کے بعد فوجی افسر اور اس کے بعد مصر کے نئے صدر انور سادات نے دلیرانہ اور فوری فیصلہ کرتے ہوئے ماسکو کو چھوڑ کر مغرب سے تعلق قائم کرلیا۔ اس اقدام سے سابق سوویت یونین کا مشرق وسطیٰ میں اثر و رسوخ کم ہوا اور اسرائیل کے ساتھ امن کی راہ ہموار ہوئی جو بے حد مشکل دکھائی دیتا تھا۔
1979 میں مصر اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے پیچھے فوج مضبوطی کے ساتھ کھڑی تھی۔ آگے چل کر اس معاہدے کی بدولت مصر اور امریکہ کے دوطرفہ تعاون کا آغاز ہوا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ مصری فوج سب سے بڑی بادشاہ گر بن گئی۔ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے خاتمے کا آغاز ہوا اور مشرقِ وسطیٰ میں بقائے باہمی کا پیچیدہ دور شروع ہو گیا۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو کی جانب سے اسرائیل کے زیادہ تر عرب ممالک کے ساتھ وسیع تعلقات کے مسلسل کیے جانے والے دعووں کی بنیاد امن معاہدے پر ہے۔ اگرچہ مصری فوج نے ہمیشہ عرب ممالک کی رضامندی سے ریاست کے قیام اور وقار کے حوالے سے فلسطینیوں کے حقوق کے منافی پالیسی برقرار رکھی جبکہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول کے مطابق رکھے گئے۔ بعض عرب ممالک نے تاریخی روایات کو نظرانداز کردیا اور تیزی سے ایسی پالیسی اختیار کی جسے انہوں نے ایران کے خلاف اسرائیلی انشورنس پالیسی سمجھا۔ اس اقدام سے ناراض فلسطینیوں میں تحریک اور غیر محفوظ ہونے کی سوچ پیدا ہوئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بہت سے فلسطینی حکام اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ مصری فوج ان کے لیے سفارتی و دفاعی اثاثہ ہے جو بوقت ضرورت کام آ سکتا ہے۔ فلسطین عرب قوم پرستی کی بنیاد بنا اور اسے اب بھی فوج کے اعلیٰ حلقوں میں نظریاتی سمت کے تعین کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
لیکن مسئلہ فلسطین جو عرب ہمدردی کی بنیاد ہوا کرتا تھا اب کمزور پڑ رہا ہے۔ علاقائی اتحادوں کے درمیان ایک نیا تصادم جس کی بنیاد قوم پرستی اور نظریاتی ہے عرب دنیا میں زندگی اور موت کا نیا مسئلہ بنتا جا رہا ہے اور مصری فوج اس پیچیدہ اور پریشان کن صورت حال کے درمیان میں کھڑی ہے۔
2013 میں قاہرہ کی سڑکوں پر طاقت کا مظاہرہ جو اخوان المسلمین کو پیچھے دھکیلنے کی مہم کا بڑا حصہ تھا، نے اُس وقت ملک میں موجود اس اسلامی سوچ کی راہیں بند کردیں جو ترکی اور چھوٹے لیکن فعال قطر کی معاونت سے پروان چڑھ رہی تھی۔ اس طرح اسلام پسندوں کی خلافت عثمانیہ طرز کے نظام حکومت کی بحالی کا راستہ روک دیا گیا۔
لیکن استحکام کی بحالی کی جدوجہد میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مصر کی نئی انتظامیہ نے امتیازی بنیادوں پر بہت زیادہ گرفتاریاں کیں اور لوگوں کو پولیس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ ہزاروں افراد کو جیل بھیج دیا گیا جبکہ اظہارِ رائے کی آزادی کو بے رحمی کے ساتھ دبا دیا گیا۔ صدر ابوالفتح السیسی کی سیاسی مخالفت خاموش کرا دی گئی۔
تاہم فوج کو بھی قیمت ادا کرنی پڑی۔ ہزاروں افسر اور جوان سینا کی وادی میں داعش کے خلاف کبھی نہ ختم ہونے والی لڑائی کی نذر ہو گئے۔ فوج کی سول سوسائٹی پر سخت گرفت کے لیے مداخلت پر مبنی حکمت عملی کے سبب قومی سطح پر اس کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی۔ اس صورت حال نے فوج کو اس بنیادی مسئلے کے وسط میں لا کر کھڑا کر دیا جس کا مشرق وسطیٰ کو اُس وقت سامنا ہے۔ اس مرحلے پر عربوں کو زیادہ کس چیز کی ضرورت ہے، جمہوریت یا استحکام؟
ترکی اور قطر کے ایجنڈے کو مسترد کرنے سے لیبیا، سوڈان اور یمن میں سیکولر قوتیں وجود میں آئیں، جس سے اسلام پسندی کے ابھرتے ہوئے رجحان پر زد پڑی۔ اب مصر میں فوج ایک نئے علاقائی رجحان کی قیادت کر رہی ہے جو اقتصادی اصلاحات کا ہے۔
عرب نوجوانوں میں پائے جانے والے عدم اطمینان کا سبب روایتی اقتصادی پالیسیاں، بدعنوانی اور عرب دنیا کے وسائل کی بدانتظامی ہے۔ نوجوانوں کی بے چینی کا مسئلہ جمال عبدالناصر کے دور سے چلے آنے والے معاشی جمود کے خاتمے کے لیے کوششوں کے دوران ابھر کر سامنے آیا ہے۔ فوج بڑی توجہ کے ساتھ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے اصلاحات کے پروگرام پر عملدرآمد کر رہی ہے۔ اصلاحات کے اس ایجنڈے نے گذشتہ تین برس میں مصر کی معیشت کا چہرہ تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ ایجنڈا ملک وقوم کی قسمت کا ازسرنو تعین کرے گا۔ عرب دنیا بھی اس ایجنڈے کی تقلید پر ایک بار پھر تیار دکھائی دیتی ہے۔
© The Independent