پچھلے دنوں میری بہت پیاری دوست رابعہ الرباء نے مجھ سے علی ایکسپریس کے بارے میں پوچھا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں بہت سے لوگ علی ایکسپریس کی مدد سے چین سے براہِ راست خریداری کر رہے ہیں۔ انہوں نے پہلی بار اس ایپ سے کچھ خریداری کی تھی۔ پھر سوچ رہی تھیں کہ وہ چیزیں ان تک پہنچیں گی بھی یا نہیں۔ پہنچیں گی تو کیسی ہوں گی۔
میں نے انہیں بتایا کہ میں نے کبھی علی ایکسپریس سے خریداری نہیں کی۔ چین میں علی ایکسپریس استعمال نہیں ہوتی۔ وہاں علی بابا گروپ کی ہی ایک دوسری ایپ تاؤباؤ استعمال ہوتی ہے۔ علی بابا گروپ نے علی ایکسپریس چین سے باہر کی مارکیٹ کے لیے بنائی ہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
بظاہر اس کی وجہ چین میں رائج ادائیگی کے مخصوص طریقے کار بتائے جاتے ہیں۔ چین میں عام طور سے لوگ اپنے موبائل کی مدد سے رقم کی ادائیگی کرتے ہیں۔ اس کے لیے ان کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں۔ وی چیٹ پے اور علی پے۔ چینی صارفین نے دونوں ایپس کے ساتھ اپنا بنک اکاؤنٹ منسلک کیا ہوتا ہے۔ وہ ان میں سے کسی بھی آپشن کی مدد سے سیکنڈوں میں رقم کا لین دین کر سکتے ہیں۔
علی پے جیسے کہ نام سے ظاہر ہے علی بابا گروپ کی ملکیت ہے۔ تاؤباؤ پر رقم کی ادائیگی کی ایک آپشن ہے جو ظاہری بات ہے چینیوں کو دستیاب کرنا ضروری تھی۔ چینی اپنے بنک کارڈ ہماری طرح استعمال نہیں کرتے۔ ان کے لیے فون سے رقم کا لین دین کرنا زیادہ آسان ہے۔
علی ایکسپریس پر یہ آپشن موجود نہیں ہے۔ وہاں صارفین کو رقم کی ادائیگی کے لیے اپنے بنک کی طرف سے جاری کردہ کارڈ کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ چین میں اگر صارفین کو کسی ایسے پلیٹ فارم سے خریداری کرنی پڑ جائے تو وہ پریشانی میں آ جائیں گے۔ سب سے پہلے انہیں اپنا بنک کارڈ ڈھونڈنا پڑے گا۔ پھر اس کی تفصیلات اس پلیٹ فارم پر لکھتے ہوئے وہ بور ہو جائیں گے۔
علی ایکسپریس پاکستان میں کچھ سالوں سے کافی مقبول ہو رہا ہے۔ لوگ اس ایپ کی مدد سے چین سے براہِ راست سستا اور معیاری سامان منگوا رہے ہیں۔ کچھ بھی منگوائیں بس ذہن میں دو ماہ کا وقت رکھ لیں۔ اس سے پہلے مشکل سے ہی کوئی چیز ڈیلیور ہوتی ہے۔
تاؤباؤ اس کے مقابلے میں کئی گنا بہتر ہے۔ چونکہ وہ چین کے اندر استعمال کے لیے بنائی گئی ہے، اس لیے اس پر زیادہ اشیا خریداری کے لیے دستیاب ہیں۔ آپ کے ذہن میں کچھ آئے اسے تاؤباؤ پر لکھیں آپ کو وہ چیز وہاں مل جائے گی۔
تاؤباؤ ایک سے پانچ دن میں ڈیلیوری کر دیتا ہے۔ اور سروس ایسی کہ کمال۔ ایک دفعہ میں نے تاؤباؤ سے سوٹ کیس منگوایا تھا۔ وہ ڈیلیوری کے دوران ایک طرف سے پچک گیا تھا۔ میں ڈیلیوری موصول کرنے گئی تو مجھے وہاں موجود چینی نے سوٹ کیس کی پچکی ہوئی طرف دکھائی اور مشورہ دیا کہ میں اسے واپس کر دوں۔
میں نے کہا، ’اس کے پیسے تو واپس نہیں ہوں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس نے کہا، ’کیوں نہیں ہوں گے؟ تم دکاندار کو جو کہو گی وہ وہی کرے گا۔ تم اس کی جگہ نیا سوٹ کیس لینا چاہو یا پیسے یہ تمہاری مرضی ہے۔‘
میں نے حیران ہو کر پوچھا، ’کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے؟‘
اس نے کہا بالکل۔ میں نے وہیں اپنے تاؤباؤ ایپ سے دکاندار کو سوٹ کیس کی تصاویر بھیجیں اور اسے نیا سوٹ کیس بھیجنے کا کہا۔ اس نے بغیر کسی بحث کے میری درخواست قبول کر لی۔
علی ایکسپریس پر شاید ایسا کرنا مشکل ہو۔ وہاں چیزوں کی واپسی یا تبدیلی کا نظام تو موجود ہے لیکن اس میں بہت وقت اور پیسے لگ سکتے ہیں۔ اس لیے اس آپشن کو استعمال کرنا فضول ہے۔
تاؤباؤ پر دستیاب چیزوں کا معیار بھی علی ایکسپریس پر ملنے والی چیزوں سے بہتر ہے۔ ہم اپنی مصنوعات کی سب سے بہترین کوالٹی برآمد کر دیتے ہیں۔ چین کا معاملہ الٹ ہے۔ چین سے باہر نکلتے ہی چینی مصنوعات کا معیار گر جاتا ہے۔ آپ چین سے اپنے گھر کے لیے کوئی چیز لائیں اور لوگوں کو فخر سے بتائیں کہ یہ تو ہم چین سے لائے ہیں تو وہ آپ سے مرعوب ہونے کی بجائے آپ کو پاگل سمجھیں گے۔
ان کے نزدیک کسی بھی چیز کے ساتھ چین کا نام لگنا اس چیز کے غیر معیاری ہونے کو ثابت کرتا ہے۔ اس میں ان کی غلطی بھی نہیں ہے۔ یہ کام چینی فیکٹریوں کا ہے۔ وہ اپنے گاہکوں کو جیسی چاہو ویسی چیز بنوا لے کے فارمولے پر ان کا آرڈر تیار کر کے دیتی ہیں۔ وہ آرڈر چین سے باہر چلا جاتا ہے اور اس کے عوض پیسے ان کے پاس چین آ جاتے ہیں۔
بظاہر یہ دونوں اطراف کے لیے منافع کا سودا ہے لیکن اس کی ایک بھاری قیمت چین اپنے اوپر لگے ایک برے لیبل کی صورت میں ادا کرتا ہے۔
اس کے باوجود علی ایکسپریس سے خریداری کرنا فائدہ مند ہے۔ وہاں سے کم از کم آپ کو معیاری چینی اشیا مل سکتی ہیں۔ آپ وہی چیزیں بازار سے لینے جائیں تو آپ کو وہ معیار نہیں ملے گا۔
لیکن اس سے پہلے رقم کا حساب لگا لیں۔ علی ایکسپریس سے خریداری ڈیلیوری اور بنک چارجز ملا کر سستی پڑ رہی ہو تبھی کریں ورنہ وہاں سے خریداری آپ کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔