کہتے تھے پاکستان کبھی امریکہ کی ڈکٹیشن قبول نہیں کرے گا۔ کبھی امداد نہیں مانگے گا۔ کبھی امریکہ کی غلامی نہیں کرے گا۔ کبھی امریکہ کے آگے جھکے گا نہیں۔ خود مختاری، عزت نفس، ڈٹ جانے اور سمجھوتہ نہ کرنے کے خوش کن الفاظ کے درس عوامی کپتان کی زبان سے سیدھا دلوں پر اثر کرتے تھے۔۔۔ کیا زمانہ تھا!
پھر ایسا ہوا کہ عمران خان وزیر اعظم بن گئے اور ایک دن امریکہ نے واقعی عمران خان کو للکار دیا۔ ابھی عمران خان کے سر پر بیٹھا اقتدار کا ہما چار ماہ کا ہی تھا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستانیوں کو احمق کہہ کر ہماری عزت نفس کو للکارا۔ پاکستان کو جھوٹا قرار دیا، کہا پاکستان عالمی دہشت گرد اسامہ بن لادن کو چھپائے ہوئے تھا لیکن امریکہ سے چھپاتا رہا۔
کہا پاکستان امریکہ کے لیے کام ٹکے کا نہیں کرتا اور وصولی کرتا ہے کئی اربوں ڈالروں کی۔ مثال دی اسامہ بن لادن کی اور افغان مسئلے کی، یعنی پاکستان پر ڈبل گیم کھیلنے کا الزام بھی لگا دیا۔ ایسی سفارتی تو تڑاخ کرنے کے ساتھ ہی امریکی صدر نے پاکستان کی امداد بھی بند کر دی۔
عمران خان بھی آخر کو ٹرمپ کے ہم پلہ ہیں، کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔ ترکی بہ ترکی جواب دیا اور صدر ٹرمپ کو کھری کھری سنا دیں۔ ٹرمپ کے الزامات کو غلط قرار دیا اور بتانے کے ساتھ جتا بھی دیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے کس کس طرح کی قربانیاں دی ہیں اور کسی بھی قوم سے زیادہ۔ ساتھ ہی مہذب سفارتی دھمکی بھی لگا دی اب پاکستان وہی کرے گا جو پاکستانی عوام کے مفاد میں ہو گا۔
اینٹ کا جواب پتھر۔ ٹرمپ بھی وقتی خاموش ہو گئے اور عمران خان نے پاکستانیوں کے دل جیت لیے۔ وقت گز گیا، بات آئی گئی ہو گئی۔ ریاستوں کے تعلقات اور معاملات معمول کی نہج پر چلتے رہے۔
ایک معاملہ البتہ انتہائی دانش مندی اور سنجیدگی سے منازل طے کرتا رہا اور وہ تھا افغان مسئلے کا حل۔ ٹرمپ اور عمران خان کی سفارتی جھڑپ اور امریکہ پاکستان کے محبت و نفرت کے لبادے میں لپٹے تعلقات نے بھی افغان مسئلے کے حل کی طرف بڑھتے قدموں پر زنجیر نہ ڈالی۔
تعلقات کی یہی باہمی ضرورت تھی کہ ٹوئٹر جھڑپ کے آٹھ ماہ کے دوران ہی ضرورت محسوس ہو گئی کہ وزیر اعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ کی ملاقات ہونی چاہیے۔ اس ملاقات کی زیادہ ضرورت گو پاکستان کو تھی۔
وزیر اعظم عمران خان کے دورہِ امریکہ کا آغاز تو خوب ہوا، اوورسیز پاکستانیوں کا تاریخی جلسہ بھی کیا، خطاب اگرچہ بہتر ہو سکتا تھا لیکن بہرحال بیرون ملک کسی بھی بڑے اور تاریخی جلسے کا سہرا اپنے سر ضرور باندھ لیا۔
جلسے جلوسوں میں اس وقت کوئی بھی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کا مقابلہ نہیں کر سکتی، چاہے یہ جلسے جلوس پاکستان میں ہوں یا پاکستان سے باہر۔
لیکن اصل امتحان تو صدر ٹرمپ سے ملاقات میں تھا۔ ملاقات کا آغاز بھی انتہائی خوشگوار ہوا، دونوں رہنماؤں کی شخصیات اور رویے کو لے کر جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا وہ گرم جوش مصافحے کی حدت سے ہی پگھل گئے۔
ملاقات ہوئی اور خوب رہی لیکن اصل تہلکہ دونوں رہنماؤں کی میڈیا سے گفتگو میں ہوا۔ مسئلہ کشمیرمیں ثالثی کا کردار ادا کرنے پر رضامندی دکھا کر صدر ٹرمپ نے پوری دنیا کو حیران کر دیا اور ششدر تو بھارت اس وقت ہوا جب ٹرمپ نے بغیر لگی لپٹی رکھے عالمی میڈیا کے سامنے آن ریکارڈ بتا دیا کہ ثالثی کی درخواست بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کی طرف سے آئی تھی۔
بھارت پر تو جیسے امریکہ نے سرجیکل سٹرائیک کر دی، کشمیر بم گرا دیا، پورے بھارت میں بھونچال آ گیا اور وزیر اعظم نریندر مودی سے وضاحت مانگی جا رہی ہے جو تادم تحریر تو ان کی طرف سے نہیں آئی۔
مودی نے ستمبر میں امریکہ کا سرکاری دورہ کرنا ہے لیکن صدر ٹرمپ نے مودی کے بھارت کے لیے شدید مشکل کھڑی کر دی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کشمیر پر بات وزیر اعظم عمران خان کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھی۔ صدر ٹرمپ کا کشمیر پر ٹرمپ کارڈ وزیر اعظم خان اور پاکستان کے لیے غیبی امداد بن کر سامنے آیا ہے۔
پاکستان کو ضرورت ہے کہ سفارتی سطح پر اس معاملے کو اب بہترین کارڈ کے طور پر کھیلے۔ صدر ٹرمپ نے عمران خان کو ایک لوز بال کرائی ہے جس پر اب چھکا لگانا ہے۔ عالمی سفارتی سطح پر دفتر خارجہ کو مسئلہ کشمیر پر امریکی ثالثی پر رضامندی اور بھارت کی ازخود درخواست کے معاملے کو جارحانہ انداز میں اجاگر کرنا ہے جس میں فی الحال تو دفتر خارجہ سست نظر آ رہا ہے۔ یوں لگ رہا ہے پورا فارن آفس محض دورہ امریکہ میں ہی مصروف ہے۔
عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو لے کر پاکستان کے کمزور بیانیے کو مضبوط کرنے کا یہ انتہائی اہم موقع ہے۔ دوسری جانب، آج کل سوشل میڈیا بیانیے کا دور ہے اور پی ٹی آئی سوشل میڈیا پر اچھی خاصی طاقت رکھتی ہے۔
حکومتی جماعت کو چاہیے صحافیوں کے خلاف ٹرینڈ بنوانے کے بجائے اس معاملے کو سوشل میڈیا کے ذریعے اچھالے اور بیانیے کو مضبوط بناتے ہوئے دنیا تک پہنچائے۔ بھارتی حکومت کی تردید کے بعد میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھارتی ٹرینڈ ’ٹرمپ کا کشمیر پر جھوٹ‘ تو اولین نمبروں پر نظر آیا لیکن حکومتی جماعت تاحال وہی عمران خان کے گن گاتی ٹرینڈز چلاتی نظر آئی۔
وزیر اعظم عمران خان کی صدر ٹرمپ سے ملاقات میں حقیقت تو یہ بھی سامنے آئی کہ ٹرمپ نے جن الزامات کو نومبر 2018 میں ٹویٹ کے ذریعے عائد کیا تھا، انہی کو عمران خان کے سامنے بیٹھے دہرایا۔
پھر وہی 1.3 ارب ڈالر کی امداد کا ذکر۔ وہی پاکستان کی بے وفائی، بے رخی اور امریکہ کا ساتھ نہ دینے کا الزام۔ یہاں تک کہ پاکستان کو تخریبی بھی کہہ دیا کہ امریکہ کے مفاد کے مخالف کام کرتا رہا۔ صدر ٹرمپ کے یہ نازیبا الفاظ سن کر میرا تو کم از کم خون کھول اٹھا۔
انتظار کیا ہمارے ہر دلعزیز وزیر اعظم عمران خان ابھی امریکہ کو اسی لہجے اور الفاظ میں جواب دیں گے لیکن انتہائی حیرانی ہوئی جب وزیر اعظم وائٹ ہاؤس کی آرام دہ کرسی سے ٹیک لگائے آرام سے مسکراتے رہے۔
یقین جانیے وہ ’اوئے ٹرمپ کی طرح دانت کھٹے‘ کر دینے والا خان بہت یاد آیا لیکن نجانے وزیر اعظم چپکے سے کیوں بیٹھے رہے۔۔۔ نجانے کیوں وزیر اعظم نے اُس وقت صدر ٹرمپ کے سیاسی اور تاریخی علم کی درستی کیوں نہ کی۔ نہ جانے اس وقت عمران خان کے چہرے پر ناگواری اور درشتی کے وہ تاثرات دیکھنے میں کیوں نہ آئے جو پاکستان میں آزادی صحافت، آزادی اظہار اور میڈیا پر پابندیوں سے متعلق ایک سوال پر عیاں ہوئے۔
وزیر اعظم کے دورہ امریکہ سے پاکستان کی امداد تو فوری بحال نہ ہوئی لیکن امریکہ نے پاکستان سے افغان مسئلے کے حل میں پاکستان کے بھرپور کردار کی دہری یقین دہانی ضرور حاصل کر لی۔
افغان مسئلے کا پُرامن حل صدر ٹرمپ کی اولین ضرورت ہے کیونکہ اگلی مدت کے لیے صدر منتخب ہونے میں یہی ٹرمپ کارڈ انہیں کامیابی دلا سکتا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا بیان دے کر ٹرمپ نے اگرچہ حساب برابر کر دیا ہے لیکن پہلے بھی گزارش کر چکی ہوں کشمیر پر بات وزیر اعظم خان کے دورے کے ایجنڈے پر ہی نہیں تھی۔
راقمہ البتہ بار بار یاد دہانی کروانے کی کوشش کرتی رہی کہ کشمیر پر بات نہ کی گئی تو تاریخی اعتبار سے عمران خان کا دورہ ادھورا ہی کہلائے گا۔ شکر ہے یہاں غیبی امداد آ گئی۔ چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں پاکستان شکیل آفریدی کو رہا کرنے پر تیار ہے اور اس کی بنیاد وزیر اعظم خان اور ٹرمپ کے بیانات قرار دیے جا رہے ہیں۔ شکیل آفریدی کو اگر بنا شرائط رہا کیا گیا تو عمران خان کے لیے انتہائی گھاٹے کا سودا ہو گا۔ عافیہ صدیقی کے بدلے شکیل آفریدی کی رہائی فی الحال جلد ممکن نظر نہیں آتی۔
پاکستان نے کہا ہم امریکہ سے ایڈ نہیں ٹریڈ چاہتے ہیں۔ فی الوقت تو اس دورے میں گفتگو ایڈ پر زیادہ ہوئی۔ ٹریڈ پر امریکہ نے پاکستان کے سامنے وہی روایتی سرکاری موقف دہرایا۔ ایڈ، ٹریڈ یا کسی سرکاری گریڈ پر ہوئی گفتگو کے ثمرات اور اثرات باہر آنے میں بہر حال ابھی کچھ وقت لگے گا۔