اگر امریکی سفارت کار اردو بول سکتے تو پیر کے روز صدر ٹرمپ اور پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی پریس کانفرنس کے فوراً بعد سب یک زبان ہوکر کہتے کہ ’یہ کیا ہوگیا؟‘ جب عمران خان نے وائٹ ہاؤس میں لائیو ٹی وی پر صدر ٹرمپ سے گزارش کی کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کریں تو ٹرمپ نے یہ کہہ کر فوری طور پر ہامی بھر لی کہ خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی بھی یہی خواہش ہے کہ امریکہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ان کی مدد کرے۔
ٹرمپ کے اس بیان نے منٹوں ہی منٹوں میں امریکی دارالحکومت کے سفارتی اور تھنک ٹھینک حلقوں میں کھلبلی مچادی۔ کرکٹ کی اصطلاح میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ امپائر نے ایک متنازع فیصلے کے ذریعے پورا میچ پاکستان کے حق میں دے دیا اور یوں عمران خان اپنے دورے کے اختتام سے ایک روز قبل ہی پاکستان کے پہلے حکمران بن گئے جو نہ صرف امریکہ کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے پر راضی کرنے میں کامیاب ہوئے بلکہ ایک امریکی صدر سے وہ بات کہلوانے میں بھی کامیاب ہوئے جو بھارت کبھی بھی نہیں چاہتا تھا۔ اس سے پہلے پاکستان کی طرف سے کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا جاتا تھا تو اب صدر ٹرمپ سے ثالثی کے حوالے سے اپنا وعدہ پورا کرنے کی یاد دہانی کرائی جائے گی۔
سیاسی جادوگر
واشنگٹن سیاسی جادوگروں کا شہر ہے۔ یہاں پر لابی اسٹس، تھنک ٹھینکس، ذرائع ابلاغ اور حتیٰ کے کسی ملک یا شخص کا امیج بہتر بنانے کے لیے نجی پبلک ریلشنز فرمز بھی موجود ہیں جو اس شہر میں زندگی کے ہر شعبے پر غالب ہوتے ہیں اور اپنی بات منوانے اور درست ثابت کرنے کی خاطر بے تحاشہ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ چنانچہ صدر ٹرمپ اور خان صاحب کی پریس کانفرنس کے بعد یہ تمام اہم کھلاڑی سرگرم ہوگئے کہ اس پریس کانفرنس سے امریکہ بھارت تعلقات پر جو منفی اثر پڑے گا اس کو مزید نقصان پہنچے سے بچایا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جہاں پاکستانی نیوز چینلز، سفارت کاروں اور پاکستانی امریکن شہریوں نے اس پریس کانفرنس کو پاکستان کے موقف کی فتح سے تشبیہ دی، وہیں دوسری طرف بھارت سے ہمدردی رکھنے والے سیاست دانوں، صحافیوں اور لابی اسٹس نے طوفان کا رخ روکنے کے لیے مختلف تراکیب استعمال کیں۔ سب سے پہلے بھارتی وزارت خارجہ نے فوری طور پر ایک وضاحتی بیان جاری کرکے کہا کہ انھوں نے ٹرمپ سے ایسی کوئی اپیل نہیں کی تھی کیونکہ بھارت سمجھتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ جتنے بھی مسائل ہیں ان کا حل دونوں مُلکوں کو خود مل بیٹھ کر ڈھونڈنا چاہیے۔
’شرمناک غلطی‘
ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن کانگریس مین بریڈ شرمین نے تو فوری طور پر امریکہ میں مقیم بھارتی سفیر سے رابطہ کرکے بقول ان کے ٹرمپ کی اس ’شرمناک اوربچکانہ غلطی‘ پر معافی مانگی۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اور نیٹو میں سابق امریکی سفیر ڈاکٹر نکولس بررنز جو امریکہ اور بھارت کے درمیان ہونے والی سول نیوکلیئر ڈیل کے پیچھے سرگرم تھے، نے ٹوئٹر پر جاکر جنوبی ایشیا کی جانب امریکی پالیسی کی وضاحت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت مستقل طور پر کشمیر کے معاملے پر کسی تیسری قوت کی مداخلت کے خلاف ہے جب کہ پاکستان اس کے حق میں ہے۔ اگر بھارت ثالثی کے معاملے کی مخالفت کرے گا تو امریکہ کے لیے اس سلسلے میں کچھ کرنا مشکل ہوگا۔
صدر ٹرمپ کی غیر مستقل مزاجی اور عالمی سیاست سے نابلدی کو دیکھ کر پتہ نہیں کہ پاکستان کو ان کے وعدوں پر کتنا خوش ہونا چاہیے، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں صدر ٹرمپ اپنی تمام باتوں سے مکر جائیں اور اسی طرح کا یو ٹرن لے لیں، جسے پاکستان میں عمران خان سیاست میں کامیاب ہونے کے لیے لازمی سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ وائٹ ہاؤس نے اس ملاقات کے بعد جو فیکٹ شیٹ جاری کی ہے، اس میں بھارت اور کشمیر کے الفاظ سرے سے شامل ہی نہیں ہیں۔ آنے والے دنوں میں شاید امریکی حکومت کی طرف سے مزید کئی باتوں پر وضاحتی اور تردیدی بیانات جاری ہوں اور جن باتوں پر اس وقت پاکستان میں خوشی منائی جارہی ہے ان سے شاید امریکہ مکمل طور پر لاتعلقی کا اظہار کرے۔
ذاتی تعلقات
پاکستان امریکہ کی تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کا دارومدار سفارتی کوششوں سے زیادہ دونوں ممالک کے سربراہوں کے ذاتی تعلقات پر ہے، جس طرح جنرل ضیا الحق نے رونلڈ ریگن اور جنرل مشرف نے جارج بش کی ساتھ ذاتی مراسم قائم کیے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ ملاقات کے بعد ان کے درمیان دوستی ہوتی ہے یا نہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ کی عادت ہے کہ وہ اپنے دوستوں کو ترک نہیں کرتا۔
پریس کانفرنس کے دوران عمران خان کی باڈی لینگوئج سے لگ رہا تھا کہ وہ ٹرمپ کی سب سے بڑی کمزوری (تعریف اور خود نمائی) کو سمجھ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی جو بار بار یہ کہتی آرہی ہے کہ پاکستان کا عروج شروع ہوگیا ہے اور اب پاکستان کو امریکہ کی ضرورت نہیں ہے، اس ہی کے رہنما کی جانب سے بار بار میڈیا کے سامنے یہ کہنا کہ ’امریکہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے‘، پاکستان کے سوچ اور رویے میں تبدیلی سے زیادہ ایک نئی سیاسی و سفارتی حکمت عملی کی طرف اشارہ کررہا ہے جس کے تحت پاکستان سمجھتا ہے کہ جو کام ٹرمپ کی تعریفیں کرکے ہوسکتا ہے وہ سخت تقریروں اور ٹوئیٹس سے ممکن نہیں ہے۔