ریپ پر متنازع ریمارکس، انڈین سپریم کورٹ کا ماتحت عدالتوں کو انتباہ

انڈیا کی سب سے اعلیٰ عدالت نے ان ججوں کو غیر حساس زبان کے استعمال پر تنقید کا نشانہ بنایا جنہوں نے ریپ کی متاثرہ خواتین سے کہا کہ انہوں نے ’خود مصیبت کو دعوت دی۔‘

آر جی کار میڈیکل کالج اور ہسپتال کی ایک ٹرینی ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے خلاف 20 جنوری 2025 کو کولکتہ میں احتجاج کے دوران نعرہ بازی کی جا رہی ہے (اے ایف پی)

انڈیا کی سب سے اعلیٰ عدالت نے ان ججوں کو غیر حساس زبان کے استعمال پر تنقید کا نشانہ بنایا جنہوں نے ریپ کی متاثرہ خواتین سے کہا کہ انہوں نے ’خود مصیبت کو دعوت دی۔‘

انڈیا کی سپریم کورٹ نے زیریں عدالتوں کو خواتین کے خلاف جنسی تشدد سے متعلق مقدمات میں ہتک آمیز زبان استعمال کرنے کے خلاف خبردار کیا ہے۔

یہ انتباہ اُس وقت سامنے آیا جب گذشتہ ماہ الہ آباد ہائی کورٹ نے یہ دعویٰ کیا کہ ایک کم عمر لڑکی کو چھیڑنا اور ان کے پاجامے کا اِزار بند کھینچنا ’ریپ کی کوشش‘ کے زمرے میں نہیں آتا۔

لائیو لا ویب سائٹ کے مطابق انڈیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ریاست اترپردیش میں دیے گئے اس فیصلے کی بنیاد اس دلیل پر رکھی گئی تھی کہ ’ریپ کی کوشش‘ اور ’تیاری‘ دو الگ چیزیں ہیں۔

اس فیصلے کے بعد انڈیا میں شدید غم و غصہ دیکھنے میں آیا۔

علاوہ ازیں اسی عدالت کے ایک اور جج نے ریپ کیس کے ایک ملزم کو ضمانت دیتے ہوئے یہ کہا کہ متاثرہ خاتون نے ’خود مصیبت کو دعوت دی‘ اور ’اسی کی ذمہ دار بھی ہے۔‘

سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ — جسٹس بھوشن رام کرشنا گوئی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح — نے 17 مارچ کو دیے گئے اس فیصلے کو ’چونکا دینے والا‘ قرار دیا، خاص طور پر اس لیے کہ یہ فیصلہ فوری نہیں بلکہ چار ماہ تک محفوظ رکھنے کے بعد سوچ سمجھ کر دیا گیا تھا۔

جسٹس گوئی نے کہا: ’اس ہائی کورٹ میں کیا ہو رہا ہے؟ اب یہی عدالت کا ایک اور جج اس طرح کی باتیں کہہ رہا ہے… ایسے ریمارکس دینے کی کیا ضرورت ہے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا: ’ایسے مقدمات میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بہت حساس نوعیت کے ہوتے ہیں۔‘

انڈیا کے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا: ’انصاف صرف ہونا نہیں چاہیے، بلکہ ہوتا ہوا دکھائی بھی دینا چاہیے۔ ایک عام آدمی ان تبصروں سے کیا تاثر لے گا؟‘

کم عمر لڑکی کو چھیڑنے کے معاملے میں، الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس رام منوہر نارائن مشرا نے فیصلہ دیا کہ ملزمان پر زیادہ سے زیادہ ’عزت پر حملے‘ کا مقدمہ بن سکتا ہے۔

استغاثہ نے دلیل دی کہ ملزمان نے لڑکی کو موٹر سائیکل پر لفٹ دینے کی پیشکش کی، اور پھر اسے جنسی طور پر ہراساں کیا، مگر راہگیروں کے دیکھ لینے پر فرار ہو گئے۔ ملزمان نے الزامات کی تردید کی ہے۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، متاثرہ لڑکی کی والدہ نے ایک غیر سرکاری تنظیم ’جسٹ رائٹس فار چلڈرن الائنس‘ کے ساتھ مل کر عدالت میں درخواست دائر کی، جس میں کہا گیا: ’یہ فعل، جو واضح جنسی نیت سے کیے گئے، ریپ کے مقصد کے تحت براہ راست اقدامات تھے، اور انہیں محض ’عزت پر حملے‘ کے طور پر رد نہیں کیا جا سکتا۔ جواب دہندگان [ملزمان] نے جرم کرنا خود سے نہیں روکا، بلکہ وہ راہگیروں کی اچانک مداخلت کی وجہ سے موقع سے بھاگنے پر مجبور ہوئے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین