پاکستان کی وزارت خارجہ نے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کی منظور کردہ قرارداد سے متعلق سوشل میڈیا پر ہونے والے تبصروں کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’اسرائیلی ترجیحات کو ایڈجسٹ‘ کرنے سے متعلق تجاویز میں کوئی حقیقت نہیں۔
منگل کو رات گئے ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے ایک بیان میں زیر تسلط فلسطینی علاقوں سے متعلق حال ہی میں منظور کی گئی انسانی حقوق کونسل (ایچ آر سی) کی قرارداد کے حوالے سے کچھ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کی گئی پوسٹس کا نوٹس لیا ہے۔
ترجمان کے مطابق ’یہ پوسٹس غلط میڈیا رپورٹس پر مبنی ہیں، جو قرارداد اپنانے کے عمل سے متعلق غلط فہمی کی عکاسی کرتی ہیں اور اس کے نتائج کو غلط بیان کرتی ہیں۔‘
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر کچھ صارفین حکومت پاکستان پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ اس نے او آئی سی کے پلیٹ فارم سے فلسطین سے متعلق قرارداد میں سے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو مخالف تبدیلیوں نکالنے کی سفارش کی۔
ایکس صارفین یہ الزام بھی عائد کر رہے ہیں کہ اسرائیل سے متعلق قرارداد میں نرمی دکھائی گئی ہے یا پاکستان کی فوج نے اسرائیل کی مدد کی ہے۔
ان میں سے بیشتر پوسٹس میں ’امریکی یہودی کانگریس‘ نامی تنظیم کی جانب سے رواں ماہ 11 اپریل کو جاری کیے گئے اعلامیہ کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’اسرائیل کے خلاف انتہائی جانبدار ہونے کے باوجود امریکی یہودی کانگریس اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی طرف سے منظور کی گئی قرارداد کی شدید شقوں کو ہٹانے، اسرائیلی شہریوں پر سات اکتوبر کے حملوں کی مذمت کرنے اور یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کرنے والی زبان کو یقینی بنانے میں پاکستان کے کردار کا خیرمقدم کرتی ہے۔‘
امریکی یہودی کانگریس کے مطابق منظور شدہ قرارداد کے الفاظ میں کئی قابل ذکر تبدیلیاں شامل ہیں۔
ان میں ’اسرائیلی شہریوں کے خلاف سات اکتوبر کو ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی باقاعدہ مذمت، اسرائیل میں شہری آبادی کے مراکز کو نشانہ بنانے والے راکٹ حملوں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے مسلح گروہوں کے بالواسطہ حوالہ جات پر واضح تنقید، اسرائیلی حکام کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے اقوام متحدہ کے ایک طریقہ کار بنانے سے متعلق شق کو ہٹانا اور قیدیوں کے ساتھ سلوک، خواتین تحویل میں لیا جانا اور لاشوں کو روکنے کے بین الاقوامی معیارات کا حوالہ دیتا ہے۔‘
امریکی یہودی کانگریس نے اس قرارداد کو ’بالواسطہ لیکن حماس پر بلاواسطہ تنقید‘ قرار دیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے اس الزام پر کہ متعلقہ قرارداد اسلامی سربراہی کانفرنس (او آئی سی) گروپ کا جنیوا میں ایک مشترکہ اقدام ہے، جو زیر تسلط فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی کاروائیوں کے احتساب پر نظر رکھتا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے کہا ہے کہ طے شدہ طریقہ کار کے مطابق، قرارداد صرف اس وقت پیش کی جاتی ہے جب فلسطینی وفد اور او آئی سی کی حتمی توثیق کے بعد متن پر اطمینان کا اظہار کرتا ہے۔ ’انسانی حقوق کونسل میں زیر تسلط فلسطینی علاقوں سے متعلق قراردادوں کی رہنمائی فلسطین کی ترجیحات سے ہوتی ہے، جس کی تصدیق او آئی سی نے اجتماعی طور پر کر رکھی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دفتر خارجہ کے مطابق کسی بھی مرحلے پر متن میں یک طرفہ ترمیم نہیں کی جاتی، انسانی حقوق کونسل کے حالیہ اجلاس کے دوران منظور کی گئی قرارداد میں اس عمل پر سختی سے عمل کیا گیا۔
’غلط بیانیوں کے برعکس قرارداد اس تجویز کو محفوظ نہیں رکھتی بلکہ اس پر مزید غور کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو بھیج دیتی ہے۔‘
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ’پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور اصولی طور پر اس کے ساتھ multilateral فورمز میں رابطے نہیں رکھتا۔ لہذا اسرائیلی ترجیحات کو ایڈجسٹ کرنے کی کوئی بھی تجویز بے بنیاد ہے۔‘
دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ انسانی حقوق کونسل کے حالیہ اجلاس نے فلسطین کے حوالے سے او آئی سی کے زیر اہتمام دو اضافی قراردادیں بھی منظور کیں۔
ترجمان کے مطابق ’نیویارک اور جنیوا میں پاکستان کے وفود او آئی سی کے فیصلوں کے مطابق فلسطینی موقف کے ساتھ مکمل طور پر مطابقت رکھتا ہے۔ ہم فلسطینی کاز کے لیے پاکستان کی غیر متزلزل اور تاریخی وابستگی کو غلط انداز میں پیش کرنے کی کسی بھی کوشش کے خلاف خبردار کرتے ہیں۔‘