یہ تحریر آپ کام نگار کی زبانی یہاں سن بھی سکتے ہیں:
انڈین حکومت کا قائم کردہ جسٹس جی ڈی کمیشن، جموں و کشمیر کی گجر برادری کے قبائلی پیدل مارچ کا باعث بنا ہوا ہے اور پہاڑی برادری کو ملنے والی ریزرویشن کے وعدے سے ان دو برادریوں میں سخت رسہ کشی دیکھی جا رہی ہے۔
ایک تخمینے کے مطابق یہ دونوں برادریاں کشمیر کی کل آبادی کے نصف کے لگ بھگ ہیں، اس لیے ان میں پیدا ہونے والے تنازعے سے پوری وادی متاثر ہو سکتی ہے۔
جن پہاڑوں اور جنگلوں سے چند سال پہلے تک ’ہم کیا چاہتے ہیں؟ آزادی!‘ کے نعرے بلند ہو رہے تھے، وہاں آج انڈیا کے شیڈولڈ ٹرائب کمیشن سے ریزرویشن حاصل کرنے کے مطالبات کے دلچسپ مناظر دیکھے جا رہے ہیں۔
گو کہ گجروں کا احتجاجی مارچ ہزاروں مسلمانوں پر مشتمل ہے لیکن پہاڑی برادری کے چھوٹے جلسوں میں مختلف مذاہب کے لوگ حصہ لے رہے ہیں۔
آپ کو یاد ہو گا کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے جموں و کشمیر کے اپنے حالیہ دورے کے دوران پہاڑیوں کو یقین دلایا ہے کہ جی ڈی شرما کمیشن کی سفارشات کے تحت گجروں کی طرح ان کو بھی شیڈولڈ ٹرائب کمیشن میں شامل کیا جا رہا ہے اور ان کے لیے تعلیم، روزگار، سیاسی اور معاشی اداروں میں مخصوص نشستیں رکھی جائیں گی۔
پہاڑی برادری نے اس کا خیر مقدم کیا لیکن پیر پنچال اور وادئ چناب میں آباد دوسری برادریوں کی جانب سے مزید ریزرویشن کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
کئی ہفتوں سے جاری کپوارہ سے کٹھوہ تک اس قبائلی پیدل مارچ میں ہزاروں کی تعداد دیکھ کر راجوری میں گجر لیڈروں کو تنبیہ کی گئی کہ وہ مارچ کو فوراً بند کر کے مذاکرات کے لیے پہل کریں۔
جموں میں بی جے پی کے سرکردہ کارکن اجیت کوہلی کہتے ہیں کہ ’آرٹیکل 370 کو ہٹانے کا بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اب ہر کوئی جموں و کشمیر میں آزادی یا اندرونی خودمختاری کے بجائے مرکزی قوانین کے تحت اپنا حصہ مانگ رہا ہے۔ یہاں کی آبادی نے آزادی کے مطالبے کے ساتھ روایتی مقامی جماعتوں کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔‘
پانچ اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی اندرونی خودمختاری ختم کرنے اور ریاست کو دو یونین ٹیریٹریز بنانے کے بعد حکومت نے دیگر درجنوں مرکزی قوانین کے ساتھ سیاسی ریزرویشن اور فارسٹ رائٹس ایکٹ کو اس خطے پر لاگو کیا ہے، جس کا اثر براہ راست یہاں کے پسماندہ طبقوں پر ہوا۔
نئی انتخابی حلقہ بندی کے تحت پسماندہ طبقے یعنی شیڈولڈ قبائل کے لیے نو نشستیں مخصوص رکھی گئیں، جن پر گجر بکر وال برادری کے مطابق صرف ان کا حق ہے مگر بھارتیہ جنتا پارٹی بظاہر اس کوٹے میں پہاڑی برادری کو بھی شامل کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔
پہاڑی برادری کے بارے میں گجروں کا خیال ہے کہ وہ نہ تو پسماندہ ہے اور نہ گجروں کی طرح خانہ بدوش زندگی گزارنے کی عادی ہے۔
گجر کارکن عظیم چوہدری کہتے ہیں کہ ’بیشتر پہاڑی اونچی ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور معاشی آسودگی اور سیاسی طور پر با اختیار رہے ہیں۔ ان میں بخاری، ملک، شرما، گپتا اور راجپوت شامل ہیں۔ بی جے پی اصل میں ذات پات کی سیاست جموں و کشمیر میں لے آئی ہے جہاں وہ راجپوتوں سمیت دوسرے ہندوؤں اور با اثر پہاڑی امرا کو ووٹ کے ساتھ ساتھ نشستوں پر بٹھانے کا منصوبہ بنا رہی ہے تاکہ جموں و کشمیر میں حکومت بنانے کے اپنے خواب کو پورا کر سکے، اس منصوبے کا مقصد مسلمانوں کے مابین تفریق اور ہندو حکومت قائم کرنا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عظیم چوہدری نے مزید کہا کہ ’بی جے پی کے مقامی صدر رویندر رینہ بھی پہاڑی برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ خود کو ریزرویشن دینا چاہتے ہیں مگر نہ جانے پہاڑی مسلمان کیوں خوش ہو رہے ہیں۔ اسی کمیشن کی وساطت سے مسلمانوں کو بے اختیار کر کے مغربی پاکستان سے آنے والے ہندو شر نارتھیوں کو بھی با اختیار بنانا ہے، ورنہ مسلم اکثریتی علاقے میں ایس ٹی کا تصور بھی نہیں تھا۔‘
لیکن چناب پہاڑی ریزرویشن موومنٹ کے سربراہ ایڈووکیٹ شیخ ایاز حسین کہتے ہیں کہ ’پہاڑی برادری کئی دہائیوں سے اداروں میں خصوصی کوٹا حاصل کرنے کے لیے ایک مہم چلاتی رہی ہے، جس میں اب تیزی لائی جا رہی ہے۔ حکومت نے ہمیشہ سے پہاڑیوں کے ساتھ مذاق کیا ہے۔‘
1991 میں 15 لاکھ گجر آبادی کو شیڈولڈ قبائل درجہ دے کر دس فیصد ریزرویشن کا حقدار بنایا گیا تھا، جو تقریباً تین سال پہلے اندرونی خودمختاری ختم ہونے کے بعد ساڑھے سات فیصد تک گھٹا دی گئی ہے اور جس میں بقول گجر برادری کے، پہاڑی برادری کو شامل کر کے مزید کم کیا جا رہا ہے۔
جموں کشمیر میں ایک اندازے کے مطابق اس وقت گجروں کی تعداد 20 لاکھ سے زائد ہے جبکہ پہاڑی برادری کی آبادی دس سے 15 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ گجروں کی صرف 17 فیصد آبادی خواندہ ہے اور بیشتر آبادی اب بھی خانہ بدوشوں کی زندگی بسر کر رہی ہے۔
بی جے پی کے صدررویندر رینہ نے گجروں کے خدشات کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں آباد 744 قبیلوں کو شیڈولڈ ٹرائب زمرے کے تحت ریزرویشن کا فائدہ دیا جا رہا ہے، اگر اس میں پہاڑی قبیلہ بھی شامل ہوتا ہے تو اس سے دوسروں کو تکلیف کیوں ہے۔
گجر کہتے ہیں کہ اس سے تکلیف ہو گی، جب گجر یا بکر والوں کو ملنے والی ریزرویشن کو کسی اور کی جھولی میں ڈال کر سیاسی فائدہ حاصل کیا جائے گا۔
گپکار اتحاد میں شامل مین سٹریم جماعتوں کا ماننا ہے کہ بی جے پی گجروں اور پہاڑی برادری کو اپنا ووٹ بینک بنانے کے چکر میں ریزرویشن دے کر اپنی جانب مائل کرنا چاہتی ہے۔ اتحاد کو یقین ہے کہ جموں کا ہندو ووٹ پہلے ہی بی جے پی کے کھاتے میں ہے اور وہ کشمیر میں تقریباً 35 لاکھ پسماندہ طبقے کو ریزرویشن کی لالچ دے کر مخصوص کوٹے والی اسمبلی کی سیٹیں حاصل کر سکتی ہے۔
گجر اور پہاڑی برادریاں روایتی طور نیشنل کانفرنس یا کانگریس کی ووٹر رہی ہیں اور ماضی میں آزادی نواز قیادت کی بائیکاٹ کال کے باوجود انتخابات میں ووٹ ڈالتی رہی ہیں، البتہ 90 کی مسلح تحریک میں گجر برادری کا اہم کردار رہا ہے۔
گجر ایکٹوسٹ ارشاد چوہدری کہتے ہیں کہ ’مرکزی سرکار کی یہ پالیسی مشکوک نظر آ رہی ہے، جس نے برادریوں میں پھوٹ ڈال کر نئی حکومت بنانے کا ڈرامہ تیار کیا ہے۔‘
گجروں کی بڑی آبادی جموں و کشمیر کے علاوہ شمالی انڈیا کی ریاستوں ہماچل، راجستھان، پنجاب اور ہریانہ میں پھیلی ہوئی ہے۔ بعض گجر رہنماؤں نے اپنی مہم میں ان ریاستوں کی حمایت حاصل کرنے کی بات چھیڑی ہے جو اگر مارچ میں شامل ہوئے تو بی جے پی کے لیے آئندہ ریاستی اور پارلیمانی انتخابات میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
بی جے پی کو اونچی ذات والے ہندووں کی پارٹی تصور کیا جاتا رہا ہے جو مبصرین کے مطابق اب ریزرویشن کے چکمے دے کر پسماندہ ووٹ حاصل کرنے کی اپنی نئی حکمت عملی پر گامزن دکھائی دیتی نظر آ رہی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔