پوتن سے فون پر ’نتیجہ خیز بات چیت‘ میں یوکرینی فوجیوں کی جان بخشی کو کہا: ٹرمپ

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یوکرینی فوجی ’بہت خراب اور کمزور پوزیشن میں ہیں‘ اور انہیں ’خوفناک قتل عام‘ کا سامنا ہو سکتا ہے جو روس کے ہاتھوں ایسا ہوگا ’جیسا کہ یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے بعد کبھی نہیں دیکھا گیا۔‘

جرمن حکومت کی طرف سے سات جولائی 2017 کو جاری کردہ ہینڈ آؤٹ تصویر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ہیمبرگ میں G20 سربراہی اجلاس کے دوران اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوتن سے مصافحہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے (سٹیفن کگلر / بنڈیسرجیرنگ / اے ایف پی)

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کو کہا ہے کہ انہوں نے روسی صدر ولادی میر پوتن سے ٹیلی فون پر بات کی۔

ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے روسی رہنما سے کہا کہ وہ اپنی فوج کو حکم دیں کہ وہ ان یوکرینی فوجیوں کا قتل عام نہ کریں، جنہیں وہ کئی ماہ کے قبضے کے بعد کیئف کی افواج سے واپس لیے گئے کرسک کے علاقے سے بے دخل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ٹرمپ نے اپنی ویب سائٹ ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں روسی صدر کے ساتھ اپنی گفتگو کو بیان کیا۔ یہ جنوری میں امریکی صدر کے طور پر دوبارہ عہدہ سنبھالنے کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان دوسری فون کال تھی۔ انہوں نے اس گفتگو کو ’بہت اچھی اور مفید بات چیت‘  قرار دیا اور کہا کہ ’بہت زیادہ امکان‘ ہے کہ وہ جنگ جو پوتن نے تین سال قبل بغیر کسی اشتعال کے یوکرین پر حملہ کرکے شروع کی، ’بالآخر ختم ہو سکتی ہے۔‘

ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ یہ ممکنہ پیش رفت ان مذاکرات کا نتیجہ ہو سکتی ہے جو انہوں نے پوتن کے ساتھ شروع کیے۔ یہ بات چیت امریکی پالیسی میں بڑی تبدیلی کا حصہ ہے، جس کے بعد واشنگٹن اب ماسکو کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ نظر آتا ہے بجائے امریکہ کے جمہوری اتحادیوں کے۔

ٹرمپ نے روسی دعوے کو دہراتے ہوئے کہا کہ روسی فوج نے کرسک کے علاقے میں یوکرینی افواج کو مکمل طور پر گھیر لیا ہے۔ خاص طور پر انہیں سوزھا کے علاقے سے نکالنے کے بعد، جو اس خطے کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔

انہوں نے کہا کہ یوکرینی فوجی ’بہت خراب اور کمزور پوزیشن میں ہیں‘ اور انہیں ’خوفناک قتل عام‘ کا سامنا ہو سکتا ہے جو روس کے ہاتھوں ایسا ہوگا ’جیسا کہ یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے بعد کبھی نہیں دیکھا گیا۔‘

ٹرمپ کا  کہنا تھا کہ ’میں نے صدر پوتن سے پرزور درخواست کی ہے کہ ان (یوکرینی فوجیوں) کی جان بخش دی جائے۔‘

قبل ازیں رواں ہفتے  پوتن نے پیشگی اطلاع کے بغیر کرسک کے علاقے کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے اگلے محاذ پر موجود فوجیوں سے خطاب کیا۔ انہوں نے اپنی فوج کو ہدایت کی کہ وہ ’کرسک کو مکمل طور پر آزاد کرا لیں‘ اور جلد از جلد اس علاقے پر کنٹرول حاصل کریں تاکہ یوکرین کی سرحد کے ساتھ ’بفر زون‘ قائم کیا جا سکے۔

لیکن ایسا نہیں لگتا کہ پوتن، ٹرمپ کی اپیلوں کے باوجود اپنی فوج کو رحم کا حکم دینے کے لیے تیار ہیں۔

کرسک میں روسی فوجیوں سے ملاقات کے دوران پوتن نے کہا کہ جو یوکرینی فوجی ان کی گرفت میں آئیں انہیں ’دشمن فوج‘ کی بجائے ’دہشت گرد‘ سمجھا جائے اور اس کے مطابق ان کے ساتھ سلوک کیا جائے، یعنی انہیں جنیوا کنونشن کے تحت ملنے والے تحفظ کا حقدار نہ سمجھا جائے۔

پوتن نے جمعرات کو کہا کہ وہ ٹرمپ کی جنگ بندی کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی خبردار کیا کہ روس اس وقت تک لڑائی بند نہیں کر سکتا جب تک کہ کچھ مخصوص شرائط پوری نہ ہو جائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹرمپ نے اسی دن اپنے بیان میں روسی صدر کے مؤقف کو ’بہت امید افزا‘ قرار دیا لیکن جمعے کو ایک الگ ٹروتھ سوشل پوسٹ میں انہوں نے ماسکو پر زور دیا کہ وہ ’جنگ بندی اور حتمی معاہدے‘ پر دستخط کرے اور اس کی پاسداری کرے۔

انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے امریکہ کو ’روس کے ساتھ حقیقی الجھاؤ‘  سے نکالا جا سکتا ہے جو گذشتہ بائیڈن انتظامیہ کی پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ ایسا اس لیے ہوا کہ بائیڈن انتظامیہ نے مغربی یوکرین کے دفاع کے لیے مغربی جمہوریتوں کو متحرک کیا۔ یہ کام  پوتن کے فروری 2022 میں بغیر کسی اشتعال کے یوکرین پر حملے کے بعد کیا گیا۔

صدر ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے ان کے چنے ہوئے نمائندے اور ریئل اسٹیٹ ڈویلپر سٹیو وٹکوف صدر پوتن اور دیگر حکام سے مذاکرات کے لیے ماسکو میں ہیں۔

وٹکوف یوکرین سے متعلق مذاکرات میں اس وقت شامل ہوئے جب ٹرمپ نے ماسکو کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا کہ ان کے پہلے انتخاب، ریٹائرڈ امریکی فوجی جنرل کیتھ کیلوج، کو ان مذاکرات سے دور رکھا جائے۔

اطلاعات کے مطابق روسی حکام نے کیلوگ پر اعتراض کیا کہ وہ فوجی افسر رہ چکے ہیں اور یوکرین کے دفاع کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔

ایک روسی عہدے دار نے این بی سی نیوز کو بتایا کہ ’کیلوگ ہمارے مزاج کے آدمی نہیں، وہ اتنے قابل آدمی نہیں جو ہم چاہتے ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ