پنجاب: پانچ سال میں ایک کروڑ بچے سکول داخل کرنے کا منصوبہ، وسائل کیا؟

گذشتہ کئی دہائیوں سے ہر دور حکومت میں بچوں کشہباز شریف نے اپنے دور حکومت میں ’پڑھا لکھا پنجاب‘ کا نعرہ لگایا، تحریک انصاف کے دور میں ’پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب‘ کا منصوبہ شروع ہوا اور اب موجودہ حکومت نے ’پڑھا لکھا آگے بڑھتا پنجاب‘ کا نعرہ لگایا ہے۔

24 مئی 2024 کو لاہور کے ایک سکول کے باہر طلبا کلاس کے آخری دن میں شرکت کے بعد ایک دوسرے سے مل رہے ہیں (سید مرتضیٰ/ اے ایف پی)

محکمہ سکول ایجوکیشن پنجاب نے تعلیم سے محروم ایک کروڑ بچوں کو پانچ سال میں تعلیمی اداروں میں داخل کرنے کا اعلان کیا ہے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں دو کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں، جن میں ایک کروڑ سے زائد کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے۔

ترجمان محکمہ تعلیم پنجاب نورالہدیٰ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’محکمہ سکول ایجوکیشن کی منصوبہ بندی کے مطابق تین ادارے مل کر ایک کروڑ بچوں کو سکولوں میں داخل کریں گے۔ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن 50 لاکھ بچوں کو سکولوں میں داخل کرے گا۔ سرکاری سکولوں میں 30 لاکھ آؤٹ آف سکول بچوں کو داخل کیا جائے گا۔ اسی طرح 20 لاکھ بچے محکمہ لٹریسی کے سکولوں میں داخل کیے جائیں گے۔ محکمہ سکول ایجوکیشن نے تمام ماتحت اداروں کو داخلوں کے اہداف دیے ہیں۔‘

گذشتہ کئی دہائیوں سے ہر دور حکومت میں بچوں کو سکولوں میں داخل کرانے کے دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔ شہباز شریف نے اپنے دور حکومت میں ’پڑھا لکھا پنجاب‘ کا نعرہ لگایا۔ پھر تحریک انصاف کے دور میں ’پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب‘ کا منصوبہ شروع کیا گیا اور اب موجودہ حکومت نے ’پڑھا لکھا آگے بڑھتا پنجاب‘ کا نعرہ لگایا ہے، وفاقی حکومتیں بھی یہی دعویٰ کرتی رہی ہیں لیکن ابھی تک دو کروڑ سے زائد بچے ملک بھر میں سکولوں سے باہر ہیں اور ان کی تعداد آبادی کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسئلے کا مستقل اور پائیدار کوئی حل کیا موجود ہے؟

بچوں کا سکولوں میں داخلہ کیسے ممکن بنایا جا سکتا ہے؟

انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (آئی ای آر) پنجاب کے سربراہ عبدالقیوم چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ہر حکومت بچوں کو سکولوں میں داخل کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ اپنے مطابق پالیسی بنا کر کوشش بھی کرتی ہے۔ لیکن کسی حکومت کی حکمت عملی ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم ترقی یافتہ ممالک کی طرح ٹھوس حکمت عملی بنا کر اس پر عمل نہیں کر سکے۔‘

’پاکستان کے حالات ایسے ہیں کہ یہاں بنیادی طور پر حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے جامع پالیسی بنانا ہو گی۔ جس طرح دنیا بھر میں تعلیم کو عام کرنے کے لیے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں، اسی طرح ہمیں بھی غور کرنا ہوگا۔‘

عبدالقیوم چوہدری کے بقول، ’ٹیسٹنگ کی بجائے اسیسمنٹ کا اصول اپنانا چاہیے۔ کئی ممالک میں پرائمری تک تعلیم امتحان لے کر پاس یا فیل کی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ گریڈنگ کے تحت سب بچوں کو اگلی کلاسوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔ اس سے بچوں کو فیل کر کے انہیں سکولوں سے نکالنے کی بجائے محنت کرا کے تعلیم کو فروغ دیا جاتا ہے۔ دوسرا ہمارے ہاں ٹیچر ٹریننگ کا کوئی موثر نظام موجود نہیں ہے۔ جس طرح ہمارا یہ ادارہ آئی ای آر ہے، یہ سب سے بڑا ہے۔ اسی طرح دیگر صوبوں میں بھی بنائے گئے ہیں لیکن یہ ٹیچرز کی تعداد کے مطابق کافی نہیں ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے خیال میں ’ٹیچرز کے خوف اور بچوں کو ڈیل کرنے کے طریقے سے سکول آنے والے بچے بھی بھاگ جاتے ہیں۔ فیل کرنے یا خوفزدہ کرنے سے بچے سکول چھوڑتے ہیں۔ تیسری وجہ غربت تو ہے ہی۔ غریب والدین بچوں کو سکولوں کی بجائے ورک پلیس پر کمائی کرنے یا کام سیکھنے بھیج دیتے ہیں۔ تعلیم مفت دینا ریاست کی ذمہ داری ہے تو ہمارے ہاں مفت تعلیم کے پوری طرح مواقع نہیں ہیں۔ حکومتیں ادھر ادھر فنڈز لگانے کی بجائے مفت تعلیم کی سہولت دیں۔ اس کے ساتھ ہر سکول میں ووکیشنل ٹریننگ کا بندوبست بھی کیا جائے تاکہ والدین یا بچوں میں یہ خوف نہ ہو کہ تعلیم کے ساتھ مستقبل میں کوئی ہنر نہیں ہو گا۔‘

سکولوں سے باہر سب سے زیادہ بچے کن علاقوں سے ہیں؟

ستمبر 2024 میں جاری وفاقی وزارت تعلیم کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں دو کروڑ 62 لاکھ چھ ہزار 520 بچے سکول سے باہر ہیں۔

10 سے 12 سال کی عمر تک کے 49 لاکھ 35 ہزار 484 بچے مڈل تعلیم سے محروم ہیں۔ ہائی سکول کی عمر کے کل 45 لاکھ 45 ہزار 537 بچے تعلیم سے محروم جبکہ ہائر سکینڈری سکول کی عمر کے 59 لاکھ 50 ہزار 609 بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد ایک کروڑ سے زائد پنجاب کی ہے، پھر بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی ہے، اُس کے بعد سندھ کا نمبر آتا ہے۔

محکمہ تعلیم پنجاب کے اعدادوشمار کے مطابق پنجاب میں ایک کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ پرائمری سطح کے 23 لاکھ سے زائد، جونیئر اور مڈل سطح کے 36 لاکھ سے زائد، سینئر لیول کے 25 لاکھ سے زائد بچے سکولوں میں داخل نہیں۔ مجموعی طور پر 47 فیصد لڑکے، 53 فیصد لڑکیاں آؤٹ آف سکول بچوں میں شامل ہیں۔ دیہات میں یہ شرح 70 فیصد ہے۔ پنجاب میں راجن پور، رحیم یار خان، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان اور لودھراں میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

ان اعدادوشمار کے حوالے سے بھی عبدالقیوم چوہدری کا کہنا ہے کہ ’یہ مکمل درست نہیں کیونکہ ملک بھر میں تین کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ ان کی گنتی کرنے کا نظام بھی زیادہ قابل اعتماد نہیں ہے۔ دیہی اور پسماندہ علاقوں میں بچوں کا سکولوں سے باہر ہونے کا اندازہ وہاں کھیتوں، ورکشاپوں یا کارخانوں میں جا کر لگایا جاسکتا ہے۔ لہٰذا حکومت کو چائلڈ لیبر قوانین پر سختی سے عمل کرنا چاہیے اور سکولوں میں ہی انہیں ہنر سکھانا چاہیے۔ ان کے والدین کو امدادی رقم کا لالچ دے کر بچوں کو تعلیم دینے کی طرف راغب کرنا چاہیے۔ تبھی ملک میں تعلیم پوری طرح عام ہو سکے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان