پاکستان کے ایک مقبول ترین چینل سے وابستہ معروف اینکر نے مجھے چند روز پہلے فون کیا اور پوچھا کہ وہ جموں وکشمیر میں ہونے والے ان انتخابات کی اہمیت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں جو بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ اور گپکار اتحاد کے بیچ ٹوئٹر جنگ کا روپ اختیار کر چکی ہے۔
میرے منہ سے بے ساختہ نکلا ان انتخابات کی اہمیت اتنی ہی ہے جتنی آپ کے وزیر خارجہ کے اس بیان کی جو انہوں نے گپکار اتحاد کے وجود میں آنے کے وقت دیا جب انہوں نے مینسٹریم پارٹیوں کے ریاستی کردار کو حاصل کرنے کے عہد کو آزادی کی ’تحریک‘ سمجھا تھا۔
یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
اینکر نے بات کا مفہوم سمجھ کر معذرت کے ساتھ کہا کہ ’میرے ایڈیٹر دوسرے شاہ محمود قریشی ہیں جو ان انتخابات پر پرائم ٹائم ڈبیٹ کروانے پر زور دے ہیں‘۔
اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کی پالیسیاں کتنی بااثر ثابت ہو رہی ہیں جو کشمیر کے اصل مسئلے سے توجہ ہٹاکر پنچایتی انتخابات کو میڈیا کے ذریعے اتنی اہم بنا رہی ہے کہ جیسے اقوام متحدہ کے انتخابات ہو رہے ہیں۔ جن مینسٹریم پارٹییوں نے اب تک پنچایتوں کو چُھوا بھی نہیں تھا اب وہ ناصرف ان کے لیے انتخابی مہم چلا رہی ہیں بلکہ بی جے پی کو ہرانے کے لیے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی جرات بھی کرنے لگی ہیں۔
بی جے پی کی منشا ہی تھی کہ حریت کو سُلا کر مینسٹریم جماعتوں کے ساتھ انتخابی قلا بازیوں میں عوام کو اتنا الجھایا جائے کہ پاکستانی میڈیا بھی مسئلہ کشمیر کی بجائے اس کی تشہیر پر مجبور ہو جائے جس کے نتیجے میں پاکستان نواز کشمیریوں میں بدظنی پیدا کرکے حالات مزید الجھن کا باعث بنیں۔
ظاہر ہے کہ کشمیر میں حالات جتنے پیچیدہ ہوتے ہیں اتنا بی جے پی کو فائدہ ہوتا ہے جو ان کو انتخابی اثاثوں کی صورت میں جنونی عوام کو روٹی کی طرح بیچتی ہے۔
بقول ایک دوست ’پرانے زمانے میں عوام کو بےوقوف بنانا اتنا آسان نہیں تھا جتنا آج ہے۔ ٹوئٹر، فیس بک، یو ٹیوب اور نشریاتی اداروں نے جیسے جنرل گوئبلز کی کلوننگ کا پیٹنٹ حاصل کیا ہے۔‘
کشمیری قوم پہلے ہی اقتصادی، سیاسی اور ادارتی حقوق سے محروم کر دی گئی ہے۔ انہیں اس پرتشدد دلدل سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ کوئی رہبر بھی نہیں جو اپنی قوم کے لیے صحیح سمت کا تعین کرسکے- اس کا کریڈٹ بی جے پی کو جاتا ہے مگر مقامی مینسٹریم جماعتیں ان حالات میں بھی روایتی انداز میں روایتی سیاست کر رہی ہیں۔
نیشنل کانفرنس کےکٹر کارکن راجہ حنیف سمجھتے ہیں کہ ’ہمارے لیڈر اپنی ساخت بحال کرنے کی آڑ میں اب بھی، جب ہم سے سب کچھ چھین لیا گیا ہے، عوام کی بے بسی کا استحصال کر رہے ہیں۔ بی جے پی ان کے اتحاد کو کبھی پاکستانی تو کبھی چینی کوششوں کا 'گینگ' قرار دیتی ہے مگر یہ خود کو ہندوستانی کہہ کر عوام کی نفرت کا مزید نشانہ بن رہے ہیں۔‘
امت شاہ دہلی کے تخت سے ٹویٹ کرکے دنیا کو اشارہ دے رہے ہیں کہ یونین ٹریٹری میں پہلی بار ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں یہ وہی مینسٹریم شامل ہے جن کو چند ماہ سیاحتی مراکز میں بند رکھنے پر کئی عالمی اداروں نے شاید ان کی ہلکی سی سرزنش کی تھی۔
رہائی کے بعد پہلے ان جماعتوں نے جنونی ہوکر جنگ شروع کرنے کا عہد تو کیا تھا مگر ہندوتوا نے پنچوں کو چننے کا جو انتخابی پتہ پھینکا وہ صحیح نشانے پر لگا اور مینسٹریم کے رہنما فورا پھڑ پھڑائے۔ انہوں نے وزرا کی بجائے اب پنچ بننے پر اکتفا کیا۔ ان کی جنگ دو محاذوں پر جاری ہے ایک ہندتوا کی ان کو سیاسی منظر سے ہٹانے کی پالیسیوں سے، دوسرا اپنے عوام سے جو ان پر اعتماد نہیں کرتے۔
دنیا کی بڑی جمہوریتوں میں بلدیاتی انتخابات کو کافی اہم مانا جاتا ہے جو بنیادی سطح پر عوام کے ساتھ قریبی تعلق قائم کرتی ہیں اور مقامی مسائل کا حل فوری تلاش کرنے میں مدد گار ہوتی ہیں مگر جموں و کشمیر نہ تو امیر ترین جمہوری ملک امریکہ کا کوئی علاقہ ہے اور نہ قدیم ترین جمہوریت برطانیہ کا بلکہ ہمالیائی خطے کا ایک بدقسمت علاقہ جس پر سات دہایوں سے یا تو لاکھوں فوجی مسلط ہے یا دہلی کے اشارے پر چلنے والے چند سیاست دان۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماضی میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں عوام کے بیشتر طبقے اکثر غافل رہتے تھے۔ آزادی پسندوں کی بائیکاٹ کال کے باوجود چند خاندانوں پر مشتمل پارٹیوں کو جتوایا جاتا رہا ہے تاکہ 'لوہا لوہے کو کاٹتا ہے' کے مصداق بھارت نواز مقامی رہنماؤں سے آزادی پسندوں کوختم کیا جا سکے۔ اس کشمکش میں لوگ بلدیاتی انتخابات سے کتنی دلچسپی رکھتے ہیں آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔
جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے سیاسیات کے ریٹایرڈ استاد اشفاق حسین کہتے ہیں کہ 'بعض مقامی رہنما اقتدار پر قابض رہنے کے لیے عوام کے آزادی کے جذبے کو ایک ہتھیار بنا کر دہلی کے ایوانوں میں پیش کرتے رہے ہیں جس کے پہلے مدرس سابق وزیراعظم بخشی غلام محمد تھے۔
ہندوستان کشمیر پر کسی بھی صورت میں اپنا قبضہ رکھنا چاہتا تھا تو وہ چند خاندانوں کی مدد سے اس میں کامیاب ہوا حالانکہ شیخ عبداللہ نے ہندوستان نوازی کا ثبوت پہلے ہی دیا تھا جب انہوں نے الحاق کی حامی بھری تھی مگر ہندوستان کے حکمرانوں نے کشمیریوں پر کبھی اعتماد نہیں کیا جس کی تازہ مثال مفتی محمد سعید کی ہے جو وزیر داخلہ بننے کے باوجود ہمیشہ اس کی راڈار پر رہے۔ بی جے پی نے سرے سے ہی تمام پارٹیوں کو رد کرکے سیاست کی نئی پود تیار کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جو یونین ٹریٹری کو بھارت میں ضم کرنے پر کام 'کرے گی۔
امت شاہ نے گپکار اتحاد کو 'گپکار گینگ' کہہ کر مینسٹریم لیڈروں کی کوئی ہزیمت نہیں کی جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں بلکہ یہ سیاست کا معمول ہے اور ایک دوسرے پر تنقید کرنا یا کیچڑ اچھالنا ہر انتخابی عمل کا حصہ بن گیا ہے۔
امت شاہ نے ٹویٹ کرکے قومی سطح پر ان بلدیاتی انتخابات کی اہمیت جتاکر اپنے ملک کو پیغام دیا ہے کہ 'ہماری پالیسی کی تشہیر اتنی ہو کہ عالمی میڈیا بھی کشمیر کے بارے میں صرف یہ پاٹھ پڑھے کہ جموں و کشمیر میں جمہوریت کی بنیادیں جڑیں پیوست کی جارہی ہیں تاکہ عام لوگ جنونی ہوکر، جیسا مینسٹریم پارٹیاں بھی چاہتی ہیں ووٹ ڈالنے نکلیں اور بی جے پی کی سرکار دنیا کے سامنے پانچ اگست2019 کے فیصلے کو صحیح قرار دینے کا 'جواز پیش کرسکے۔
کوئی چاہیے اسے گپکار اتحاد کہیں یا گپکار گینگ، عام لوگ محال ہی اس سے اثر انداز ہوئے ہیں۔