خیبر پختونخوا میں سیاحت کے روشن امکانات کے پیش نظر صوبے کے نوجوانوں میں اس شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
سیاحت کے شعبے میں نوجوان نسل کی دلچسپی کا اندازہ صوبے کی سب سے بڑی درسگاہ یونیورسٹی آف پشاور میں دو سال قبل قائم ہونے والے ’شعبہ ٹوورازم اینڈ ہوٹل مینیجمنٹ‘ میں داخلے کے متمنی طلبا و طالبات کی تعداد سے لگایا جا سکتا ہے۔
چیئرمین شعبہ ٹوورازم اینڈ ہوٹل مینیجمنٹ پروفیسر ابراہیم شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ڈیپارٹمنٹ کے قیام کے پہلے سال ہی طلبہ کی بہت بڑی تعداد نے چار سالہ کورس میں داخلے کے لیے درخواستیں دی تھیں۔‘
’ڈپارٹمنٹ کے قیام کے پہلے ہی سال بغیر کسی اشتہاری مہم کے اتنے زیادہ داخلہ فارم موصول ہوئے کہ ہم تو پریشان ہو گئے اور اس وقت آرٹس مضامین کے شعبہ جات میں ہمیں سب سے زیادہ درخواستیں موصول ہو رہی ہیں۔‘
پروفیسر ابراہیم شاہ نے مزید بتایا کہ شعبہ سیاحت و ہوٹل مینیجمنٹ کا قیام ایک عوامی مطالبہ تھا اور اسی کے پیش نظر وائس چانسلر کے حکم کی روشنی میں نصاب تیار کیا اور ڈپارٹمنٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔
ڈپارٹمنٹ آف ٹوورازم اینڈ ہوٹل مینیجمنٹ کے قیام کے پہلے سال داخلہ لینے والے طلبہ تیسرے سمسٹر کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ڈگری کی تکمیل پر آئندہ سال میدان عمل میں اتریں گے۔
مقاصد
پروفیسر ابراہم شاہ نے بتایا کہ ڈپارٹمنٹ آف ٹوورازم اینڈ ہوٹل مینیجمنٹ ایسے ہنر مند کارکن تیار کر رہا ہے جو سیاحت کی صنعت میں اہم کردار ادا کرے گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب تک سیر و سیاحت سے متعلق شعبوں سے منسلک افراد میں اکثریت نے اس شعبے کو مضمون کے طور نہیں پڑھا۔ ’سیاحت کو بحیثیت مضمون پڑھنے والے میدان میں اتریں گے، تو ایک واضح فرق آئے گا۔‘
انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے افراد کو سیاحوں کی دلچسپی بڑھانے کے ہنر میں کمال کے علاوہ سیاحتی مقامات کی تاریخ سے بھی واقفیت حاصل ہو گی۔
انہوں نے بتایا کہ ڈپارٹمنٹ میں زیر تعلیم طلبہ میں ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جو پہلے سے اس صنعت میں ملازمتیں کر رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے معروف سیاحتی مقام چترال سے تعلق رکھنے والے ایک طالبعلم فضل ربی بھی سیاحت کی تعلیم حاصل کرنے کی خاطر ٹوورازم اینڈ ہوٹل مینیجمنٹ ڈپارٹمنٹ میں داخلے کے خواہش مند ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میں یہ مضمون پڑھ کر چترال میں سیاحت کے شعبے سے منسلک ہونے کا ارادہ رکھتا ہوں اور اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے باعث میں مستقبل میں سامنے آنے والی اسامیوں کے لیے میں ایک بہترین انتخاب ہوں گا۔‘
خیبر پختونخوا اور سیاحت
خیبر پختونخوا حکومت گذشتہ کئی سالوں سے سیاحت کی مد میں صوبے کے محصولات میں بتدریج اضافے کا دعوی کر رہی ہے۔
سال 2017 کے دوران کم قو بیش 10 لاکھ سیاحوں نے اس صوبے میں مردان، ملاکنڈ اور ہزارہ ڈویژنز کا رخ کیا تھا، جس کا ذکر کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر سیاحت عاطف خان نے توقع ظاہر کی تھی کہ 2018 کے دوران صوبے میں 30 لاکھ سیاح آ سکتے ہیں۔
کرونا وائرس کی وبا کے باعث لاک ڈاونز نے دوسری صنعتوں کی طرح سیاحت کو بھی متاثر کیا، تاہم اگست 2020 میں بندشوں کے خاتمے کے ساتھ ہی سیاحوں کی غیر معمولی تعداد خیبر پختونخوا آئی۔
صوبائی محکمہ سیاحت کے مطابق 13 سے 21 اگست کے دوران خیبر پختونخوا کے چھ بالائی اضلاع میں چھ لاکھ سے زیادہ سیاح آئے، اور سوات اور مانسہرہ سیاحوں کی تعداد کے حوالے سے سرفہرست رہے۔
اسی طرح 2021 میں عید الاضحی کے موقعے پر تقریبا 28 لاکھ سیاحوں نے صوبے کے پانچ سیاحتی مقامات بشمول ناران، کاغان، نتھیاگلی، سوات، اور دیر بالا کا رخ کیا، جہاں انہوں نے مجموعی طور پر 66 ارب روپے خرچ کیے، جس سے اس شعبے سے منسلک مقامی افراد کو ساڑھے سات ارب روپے کا فائدہ ہوا۔
صوبائی محکمہ سیاحت و ثقافت کے مطابق اگست 2021 سے سال رواں میں نومبر تک مجموعی طور پر ایک کروڑ سے زیادہ ملکی و غیر ملکی سیاحوں خیبر پختونخوا کے چھ سیاحتی مقامات کا دورہ کیا۔
سیاحت میں ہنر مندوں کی ضرورت
خیبر پختونخوا میں ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی غیر معمولی دلچسپی کے پیش نظر صوبائی حکومت شعبہ سیاحت میں زیادہ متحرک نظر آرہی ہے، اور پشاور سمیت صوبے کے دوسرے اضلاع بشمول سوات، مردان اور ہری پور کی یونیورسٹیوں میں ’سیاحت و میزبانی‘ کے الگ الگ شعبے قائم کیے گئے ہیں۔
دوسری طرف خیبر پختونخوا میں مزید سیاحتی مقامات کی تلاش کے سلسلے میں سرکاری سطح پر کوششوں میں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
صوبائی سیکریٹری سیاحت طاہر اورکزی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خیبر پختونخوا حکومت سیاحت کے شعبے میں پہلے سے زیادہ متحرک ہے، جس کا ثبوت ٹھنڈیانی اور منکیال میں دو دو ’انٹیگریٹڈ زونز‘ کا قیام ہے۔
‘انہوں نے کہا: ’ہمارے پاس پوٹینشل موجود ہے اسی لیے حکومت کا ارادہ ہے کہ سیاحت کو باقاعدہ صنعت کا درجہ دیا جائے سکے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ سیاحوں کی توجہ حاصل کرنے کی خاطر قائم کیے جانے والے انٹیگریٹڈ زونز یا ریزورسٹس میں سپیشلائزڈ افرادی قوت کی ضرورت ہو گی، جو سیاحت و میزبانی کی تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے سنہری مواقعے ہوں گے۔
خواتین کی کمی
خیبر پختونخوا میں سیاحت و میزبانی کی صنعت میں خواتین کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے، اور پشاور یونیورسٹی کے ٹوورازم اینڈ ہوٹل منیجمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں زیر تعلیم طلبا میں خواتین کی تعداد صرف پانچ ہے۔
سیکرٹری سیاحت طاہر اورکزی نے خواتین کا شعبہ سیاحت میں عدم دلچسپی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وقت کے ساتھ جب صنعت میں آسامیاں پیدا ہوں گی تو خواتین کو بھی مواقع حاصل ہوں گے۔
’میں سمجھتا ہوں کہ سیاحت و میزبانی میں خواتین زیادہ اچھا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ شعبہ سیاحت پر زیادہ تر مرد قابض رہے ہیں، لیکن اب خواتین کو بھی آگے آنا چاہیے۔ ہم حکومتی سطح پر بھی اس کے لیے کوششیں کریں گے۔‘
خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سیاحت کے فروغ کے لیے صوبائی حکومت نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سطح پر بھی کوششیں کر رہی ہے، جن میں مذہبی سیاحت کا فروغ بھی شامل ہے۔