کولمبیا یونیورسٹی نے فلسطین کے حق میں احتجاج کرنے والے طلبہ کو نکال دیا

یونیورسٹی نے ایک کیمپس ای میل میں کہا کہ عدالتی بورڈ نے ان طلبہ کو مختلف سزائیں سنائی ہیں جنہوں نے گذشتہ بہار میں غزہ میں جارحیت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ہیملٹن ہال پر قبضہ کیا تھا۔

سات اکتوبر 2024 کی اس تصویر میں فلسطین حامی مظاہرین کولمبیا یونیورسٹی کے کیمپس کے پاس سے احتجاج کرتے ہوئے گزر رہے ہیں (کینا بینت کور/ اے ایف پی)

کولمبیا کے یونیورسٹی کے حکام نے جمعرات کو اعلان کیا کہ ان طلبہ کو معطل یا نکال دیا گیا ہے جنہوں نے گذشتہ سال فلسطین کے حق میں احتجاج کے دوران کیمپس کی ایک عمارت پر قبضہ کر لیا تھا، جبکہ کچھ ایسے طلبہ کی ڈگریاں بھی عارضی طور پر منسوخ کر دی گئی ہیں جو بعد میں گریجویٹ ہوئے۔

یونیورسٹی نے ایک کیمپس ای میل میں کہا کہ عدالتی بورڈ نے ان طلبہ کو مختلف سزائیں سنائی ہیں جنہوں نے گذشتہ بہار میں غزہ جارحیت  کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ہیملٹن ہال پر قبضہ کیا تھا۔

تاہم، کولمبیا یونیورسٹی نے یہ واضح نہیں کیا کہ کتنے طلبہ کو نکالا گیا، معطل کیا گیا، یا ان کی ڈگریاں منسوخ کی گئیں، لیکن کہا کہ ان اقدامات کا فیصلہ ’رویے کی شدت کے جائزے‘ کی بنیاد پر کیا گیا۔

یہ فیصلہ ایک طویل تحقیقات کے بعد سامنے آیا، جب کہ یونیورسٹی اس وقت شدید دباؤ میں ہے کیونکہ گذشتہ ہفتے مشہور فلسطینی طلبہ کارکن محمود خلیل کو وفاقی امیگریشن حکام نے گرفتار کر لیا تھا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ یہ گرفتاری ’مزید کئی گرفتاریوں کی شروعات‘ ہو گی۔

اس کے ساتھ ہی، ٹرمپ انتظامیہ نے کولمبیا یونیورسٹی کو 40 کروڑ ڈالر سے زائد کی وفاقی فنڈنگ سے محروم کر دیا ہے، یہ الزام عائد کرتے ہوئے کہ یونیورسٹی کیمپس میں یہود دشمنی کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔

کانگریس کے رپبلکن اراکین کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کی جانب سے ہیملٹن ہال کے واقعے میں ملوث طلبہ کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہ کرنا اس کی ناقص کارکردگی کا ثبوت ہے۔

 عمارت پر قبضے کا یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب یونیورسٹی میں ایک احتجاجی خیمہ لگایا گیا تھا، جو پورے امریکہ میں دیگر یونیورسٹیوں میں مظاہروں کی ایک تحریک کا باعث بنا۔

30 اپریل 2024 کو طلبہ کے ایک چھوٹے گروپ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ہیملٹن ہال کے اندر خود کو فرنیچر اور تالوں سے بند کر لیا تھا۔

یونیورسٹی انتظامیہ کی درخواست پر، نیویارک پولیس نے اگلی رات کیمپس پر دھاوا بولا اور قبضہ کرنے والے مظاہرین کے ساتھ ساتھ کیمپس میں احتجاج کرنے والے درجنوں دیگر افراد کو گرفتار کر لیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جون میں ہونے والی ایک عدالتی سماعت میں، مین ہٹن کے ڈسٹرکٹ اٹارنی آفس نے کہا کہ وہ انتظامی عمارت میں دراندازی کے الزام میں گرفتار 46  میں سے 31 افراد کے خلاف مجرمانہ مقدمہ درج نہیں کرے گا۔

 تاہم، طلبہ کو اب بھی یونیورسٹی کی جانب سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی بنیاد پر کارروائی اور ممکنہ بے دخلی کا سامنا تھا۔

یونیورسٹی کی جانب سے جمعرات کو اعلان کردہ سزائیں کئی مہینوں کی سماعتوں کے بعد سنائی گئیں، جن کی نگرانی یونیورسٹی جوڈیشل بورڈ (یو جے بی) نے کی۔

کچھ طلبہ، جنہوں نے احتجاج میں شرکت کی لیکن عمارت پر قبضہ نہیں کیا، کو بتایا گیا کہ ان کے خلاف مزید کارروائی نہیں ہوگی، اور وہ اپنی سابقہ معطلی کے بعد واپس آ سکتے ہیں۔

یونیورسٹی کے بیان میں کہا گیا: ’پچھلے بہار میں ہونے والے دیگر واقعات کے سلسلے میں، یو جے بی نے پہلے سے عائد کی گئی تادیبی کارروائیوں کو تسلیم کیا۔‘

یہ تادیبی کارروائیاں رپبلکن اراکینِ کانگریس کی توجہ کا مرکز بن گئیں، جنہوں نے یونیورسٹی انتظامیہ کو متنبہ کیا کہ اگر احتجاج میں ملوث طلبہ کے خلاف سخت کارروائی نہ کی گئی تو اربوں ڈالر کی وفاقی فنڈنگ خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

جمعرات کو، محمود خلیل اور سات دیگر طلبہ، جن کی شناخت فرضی ناموں سے کی گئی، نے ایک مقدمہ دائر کیا جس کا مقصد کانگریس کی ایک کمیٹی کو کولمبیا یونیورسٹی اور اس سے منسلک خواتین کے تعلیمی ادارے، برنارڈ کالج، کے طلبہ کا ریکارڈ حاصل کرنے سے روکنا ہے۔

یہ مقدمہ مین ہٹن کی وفاقی عدالت میں کولمبیا یونیورسٹی، برنارڈ کالج، رپبلکن کی زیر قیادت ہاؤس کمیٹی برائے تعلیم و افرادی قوت، اور اس کے چیئرمین ریپبلکن رکن کانگریس ٹم والبرگ کے خلاف دائر کیا گیا ہے۔

مقدمے میں کانگریس کو ان تعلیمی اداروں سے طلبہ کے ریکارڈ حاصل کرنے سے مستقل طور پر روکنے اور یونیورسٹیوں کو ان احکامات پر عمل کرنے سے روکنے کے لیے عدالتی حکمِ امتناع (injunction) جاری کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

گذشتہ ماہ، کمیٹی نے کولمبیا اور برنارڈ یونیورسٹی کو ایک خط بھیجا، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ وہ طلبہ کے ریکارڈ فراہم کریں، بصورت دیگر ان کی وفاقی فنڈنگ خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

 مدعیوں نے اپنی شکایت میں مؤقف اختیار کیا کہ کمیٹی اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر رہی ہے تاکہ ’اظہارِ رائے اور وابستگی کو دبایا جا سکے، محض اس بنیاد پر کہ کون سا نظریہ پیش کیا جا رہا ہے‘، اور یہ تحقیقات ’پہلی ترمیم کے حقوق پر سنگین قدغن لگانے کا خطرہ رکھتی ہے۔‘

کمیٹی کے ترجمان کی جانب سے ای میل کیے گئے ایک بیان میں والبرگ نے کہا: ’یہ مقدمہ ہمارے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں لائے گا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ طلبہ کے ریکارڈز سے متعلق مانگی گئی معلومات ’اس معاملے پر قانون سازی پر غور کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہیں‘ اور یہ بھی کہ ’تعلیمی اداروں کو ان کی ناکامیوں کا جوابدہ ٹھہرانا لازم ہے، کیونکہ وہ ہمارے تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی یہود دشمنی کو روکنے میں ناکام رہی ہیں۔‘

برنارڈ کالج کے ترجمان نے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، جبکہ کولمبیا یونیورسٹی نے جاری قانونی کارروائی پر گفتگو کرنے سے انکار کر دیا۔

علاوہ ازیں، حال ہی میں قائم کی گئی ایک نئی تادیبی کمیٹی نے ان طلبہ کے خلاف متعدد نئے مقدمات درج کیے ہیں— جن میں محمود خلیل بھی شامل ہیں—جو اسرائیل پر تنقید کر چکے ہیں، جس پر آزادی اظہار کے حامیوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم، خلیل ان مظاہرین میں شامل نہیں تھے جن پر ہیملٹن ہال پر قبضے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

طلبہ کی بے دخلی کے اعلان کو کچھ اساتذہ کی حمایت حاصل ہوئی، جن میں الیکٹریکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین اور کولمبیا یونیورسٹی کی ٹاسک فورس برائے یہود دشمنی کے رکن، گل زوسمین شامل ہیں۔

انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا:

’بالآخر یہ ثابت کرنا کہ یونیورسٹی کے قوانین توڑنے کے نتائج ہوتے ہیں، تحقیق اور تدریس کے بنیادی مشن کی طرف واپس جانے کے لیے ایک اہم پہلا قدم ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس