لاہور کی ایک خصوصی عدالت نے ہفتے کو وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں ان کے خلاف دائر منشیات کے مقدمے میں بری کر دیا۔
انہیں جولائی 2019 میں انسداد منشیات فورس (اے این ایف) نے گرفتار کیا تھا۔
اے این ایف نے رانا ثنا اللہ کی گاڑی سے 15 کلو گرام ہیروئن برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
ہفتے کو سماعت کے دوران اے این ایف کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر امتیاز احمد اور انسپکٹر احسان اعظم نے رانا ثنا اللہ کے خلاف الزامات کو ’غلط‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
عدالت میں جمع کرائے گئے حلف نامےمیں اے این حکام کا کہنا تھا کہ وہ یکم جولائی 2019 کو راوی ٹول پلازہ پر موجود تھے، جب رانا ثنا اللہ کو گرفتار کیا گیا۔
حلف نامے میں درج ہے: ’ہم نے کبھی جائے وقوعہ سے کسی قسم کی منشیات برآمد ہوتے نہیں دیکھی۔‘
اس کے بعد عدالت نے وفاقی وزیر داخلہ اور مقدمے میں نامزد دیگر تمام افراد کو بری کر دیا۔
رانا ثنا اللہ نے ہفتے کی صبح وکیل گوہر شاہ کے ذریعے عدالت میں ایک درخواست دائر کی، جس میں ان کے خلاف مقدمے کو من گھڑت قرار دیا گیا۔
انہوں نے درخواست میں کہا: ’استغاثہ درخواست گزاروں/ملزمان کے خلاف ایک ثبوت بھی لانے میں ناکام رہی اور پوری عدالتی فائل درخواست گزار کے خلاف کسی مجرمانہ ثبوت کے بارے میں خاموش ہے۔‘
مذکورہ مقدمے کو ’سیاسی انتقام‘ کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے اپنی درخواست میں پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کے ایک بیان کا حوالہ دیا: ’سابق وزیر نے واضح طور پر کہا تھا کہ یہ مقدمہ ان کے کہنے پر درج نہیں کیا گیا۔
’عمران خان کی حکومت اور اس پر ملک کی بعض با اثر شخصیات نے مقدمہ درج کرایا تھا۔‘
عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ تمام جھوٹے مقدمات کو ختم کرنا ان کی جماعت کا حق ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہماری قیادت کے خلاف بیرون ملک درج مقدمات بھی خارج کیے جا رہے ہیں۔‘
وفاقی وزیر نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو پکارتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے فائدے کے لیے ملک میں سیاسی عدم استحکام چاہتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رانا ثنا اللہ کو جولائی 2019 میں اے این ایف لاہور کی ٹیم نے موٹروے پر راوی ٹول پلازہ کے قریب سے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ فیصل آباد سے لاہور جا رہے تھے۔
ایف آئی آر کنٹرول آف نارکوٹک سبسٹینس ایکٹ 1997 کے سیکشن نو سی کے تحت درج کی گئی تھی، جس میں سزائے موت یا عمر قید یا 14 سال تک قید کی سزا کے علاوہ 10 لاکھ روپے تک جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ اے این ایف کو اطلاع ملی تھی کہ رانا ثنا اللہ مبینہ طور پر منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں اور ہیروئن لاہور لے جا رہے ہیں۔
ٹرائل کورٹ سے ان کی دو بار ضمانت مسترد ہوئی لیکن لاہور ہائی کورٹ نے انہیں 24 دسمبر، 2019 کو ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔