لاہور میں سائیکل سواروں نے پیر کو شہریوں کو سموگ کے نقصانات سے آگاہ کرنے کے مہم کا آغاز کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تقریباً 100 افراد جن میں نوجوان بچے اور خواتین شامل ہیں ہر ہفتے شہر کی سڑکوں پر سائیکلیں دوڑائیں گے تاکہ لوگوں میں آگاہی پھیلا سکیں۔
اس مہم کے دواران سائیکل سواروں کو شہر میں سموگ کی وجہ سے پھیلنے والی آلودگی اور ڈرائیور حضرات کی بدسلوکی اور لوگوں کے منفی ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیوں وہ لوگوں کو گاڑیوں کا استعمال بند کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
اگست میں مہم کا حصہ بننے والی عافیہ خان کے بقول: ’سموگ ہمارے لیے بڑی تشویش کا سبب ہے کیوں کہ اب گاڑیوں کی تعداد اور آلودگی میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔‘
لوگوں کو اس بات پر رضامند کرنا بہت مشکل کام ہے کہ وہ ایسی سواری استعمال کریں جو ماحول دوست ہو۔
اس مہم کے دوران سائیکلسٹس کو حفاظت کے لیے پولیس کی ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ شہر کی سڑکوں پر سائیکل پر سفر کے لیے کوئی راستہ مخصوص نہیں کیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
غیرسرکاری تنظیم ’کرٹیکل ماس لاہور‘ کے ساتھ مل کر مہم چلانے والی تنظیم ’کلین پاکستان گرین پاکستان‘ کے سربراہ رانا سہیل کا کہنا ہے کہ ’سائیکلسٹ بے رحم موٹر سائیکل سواروں، چنگ چی رکشا والوں اور کار سواروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں، جو اس بات پر تیار نہیں کی سڑک پر سائیکل سواروں کو بھی جگہ دی جائے۔‘
پاکستان کے قدامت پسند معاشرے میں یہ سوچ عام ہے کہ کھیل، بشمول سائیکلنگ، خواتین کے لیے نامناسب ہے کیوں کہ انہیں مردوں کی طرف سے ہراساں کیے جانے کا خطرہ رہتا ہے۔
پورے خاندان کے ساتھ مل کر سائیکل چلانے والی طالبہ زروا جمال کا کہنا تھا کہ ’اکیلی خاتون کا سائیکل پر سفر مشکل ہو سکتا ہے جس کی وجہ ہراسانی ہے۔ گروپ کی شکل سائیکلنگ واقعی بڑی بات کیوں مجھے اپنی حفاظت کا یقین ہے۔‘
لاہور مسلسل دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔ صنعتی آلودگی، موسمی فصلوں کے جلنے، گاڑیوں سے اٹھنے والا دھواں اور موسم سرما میں کم درجہ حرارت زہریلی سموگ کا حصہ بن جاتے ہیں۔
نومبر میں عدالت نے حکام کو حکم دیا تھا کہ فضائی آلودگی کی بلند سطح کے پیش نظر اتوار کے علاوہ جمعے اور ہفتے کو بھی سکول بند رکھے جائیں۔