تیزی سے گزرتے وقت میں جب نیا سال یعنی 2023 شروع ہوا تو وقت کے بارے میں ایک عجیب سا احساس پیدا ہوا۔
جب لوگ کہتے ہیں کہ وقت بدل گیا ہے تو اس کے معنی شاید یہ ہوتے ہیں کہ گزرتے وقت کے کیلینڈر کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدل گیا ہے جس میں آگے کو سفر کرتے ماہ و سال، ارد گرد کا ماحول، بود و باش میں نت نئے فیشن کا اجرا، مواصلات اور ٹرانسپورٹ کے جدید طریقوں کے علاوہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی بھی شامل ہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
لیکن مجھے یہاں یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ خود وقت بھی اپنی حیثیت میں ایک شے کی طرح بدلتا جا رہا ہے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ وقت تو دن میں وہی چوبیس گھنٹے ہے تو بدلاؤ کاہے کا؟
جی چوبیس گھنٹے تو وہی ہیں لیکن شاید وقت گزرنے کی رفتار کا احساس بدل گیا ہے۔ پہلے وقت اپنی رفتار میں ایسے زناٹے نہیں بھرتا تھا جیسے اب بھرتا ہے کہ ابھی آنکھ کھلی تو دن ، پلک جھپکی تو رات !
گئے زمانے کی بات ہے یاد کیجیے وہ موسم جب گرمیوں کی لمبی دوپہر وں میں بڑی عمر کے لوگ سو سو کر اور ہم بچے کھیل کھیل کر تھک جاتے تھے لیکن سورج شریر کھلنڈرے بچے کی طرح گھر واپس جانے کا نام نہیں لیتا تھا۔
پہلے وقتوں میں سردیوں کی طویل راتوں میں رضائیاں اوڑھے مونگ پھلی چلغوزے کھاتے کہانیاں سنتے سناتے یا کتاب پڑھتے ہوے کالی رات اتنی لمبی لگتی تھی جیسے سحر پتہ نہیں کب ہو گی۔ سردی اور وہ بھی لاہور کی، ہڈیوں میں گھستی تھی اور رات گزرنے میں نہ آتی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ہمارے بزرگ کسی شے کے جلد ختم ہونے یا ضرورت کے حساب سے پورا نہ پڑنے پہ کہتے تھے کہ اس شے سے برکت اٹھ گئی ہے۔ اب میں سوچتی ہوں کہ وقت بھی شاید بےبرکت ہو گیا ہے۔ نئی صدی کے بائیس سال بھی گزر گئے اور پتہ نہیں چل رہا کہ کہاں گئے؟
ایک دانشمند دوست نے دل لگتی بات کہی کہ وقت اس لیے تیز ہو گیا ہے کہ ہم خود تیز بھاگ رہے ہیں۔ لمحے ہمارے قدموں کا ساتھ دینے کے لیے تیز چل رہے ہیں۔ جب ہم سکون سے رہتے تھے تو وقت بھی سکون میں تھا۔
کئی دانشور یوں بھی کہتے ہیں کہ انسان نے بیسویں صدی میں وقت بچانے کے لیے بے شمار ایجادات کیں۔ جانوروں پہ سفر کرنے کی جگہ انجن آ گئے۔ پھر انجن تیز رفتار ہوتے گئے، ہوائی جہاز میں ہزاروں میل کا فاصلہ گھنٹوں میں طے ہونے لگا۔ یہ سب کچھ وقت بچانے کے لیے کیا گیا۔پھر ایسا بھی ہوا کہ تیز رفتار طیاروں کے ذریعے دنیا کی ایک جگہ سے دوسری جگہ حقیقتاً وقت سے پہلے پہنچنا ممکن ہونے لگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن ان سب قلا بازیوں کے باوجود جس سے بات کرو وقت کی کمی کا رونا رو رہا ہوتا ہے اور ایک عام جملہ سننے کو ملتا ہے کہ ’کیا کریں وقت نہیں ملتا۔‘ اب وقت جامِ جم کی طرح کہاں سے ملے؟
اگر غالب کے دور کی مارکیٹ میں جامِ سفال کے ساتھ دستیاب ہوتا تو بھی گزارا ہو جاتا کہ
اور لے آئیں گے بازار سے گر ٹوٹ گیا
جامِ جم سے یہ مرا جامِ سفال اچھا ہے
لیکن کیا کیجیے کہ وقت کو پانا تو درکنار، آج تک کسی کو یہ سمجھ نہیں آ سکی کہ وقت چیز کیا ہے۔ بڑے بڑے نامی گرامی دانشور، عالم، رشی، فلاسفر، ماہرِ طبعیات اور ما بعدالطبعیات، کوئی اس کی ایسی مکمل تعریف نہیں بیان کر سکا جو سارے زمانوں اور مکانوں کا احاطہ کرتی ہو۔
اور یہ وقت ہے بھی تو کیا انوکھی شے یعنی زمین پہ اور، زمین کے مختلف حصوں میں اور، خلا میں کچھ اور، دور کی کہکشاؤں میں بالکل ہی اور۔
اسے سمجھنے اور سمجھانے میں فلسفیوں اور دانشوروں کی طرح سائنس دان بھی سر توڑ کوششیں کرتے رہے ہیں۔
آئن سٹائن اور ان کے استاد ہرمن منکاؤسکی نے تو حد کر دی سپیس یا خلا کو وقت سے نتھی کر کے سپیس ٹائم کی اصطلاح پیدا کی اور کششِ ثقل یعنی گریوٹی کے ذریعے بہت سے رازوں سے پردہ بھی اٹھانا شروع کر دیا۔ نظریہَ اضافت نے تو وقت کے ایسے پہلو دکھائے کہ اور تو اور زمینی گھڑیاں الگ جگہوں پہ الگ وقت دکھانے لگیں۔
سپیس میں روشنی کے قریب سفر کرتے ہوے عمر آہستہ گزرتی ہے یہ بہت سی سائینس فکشن فلموں نے بھی سمجھا دیا۔ ہالی وڈ کی مشئورِ زمانہ فلم ’انٹر سٹیلر‘ نے یہ تک دکھا اور سمجھا دیا کہ ایک گیلیکسی سے دوسری تک جانے میں ’ورم ہول‘ سے گزرتے ہوے وقت پہ کیا اثر ہو گا یا وقت کے ہاتھوں مسافر پہ کیا بیتے گی۔
لیکن اس گورکھ دھندے میں خود وقت کیا ہے؟ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔ نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم!
سٹیون ہاکنگ نے تو حد ہی کر دی 1988 میں ’وقت کی مختصر تاریخ‘ لکھ دی۔
وقت کا تیر ہمیشہ آگے کو سفر کیوں کرتا ہے؟
کیا وقت بگ بینگ کے ساتھ پیدا ہوا؟ کیا وقت کو پیچھے گھمانا سپر مین کی طرح ممکن ہے؟
ٹائم ٹریول مشین کی ایجاد ممکن ہے؟ کیا بلیک ہول میں وقت بھی قید ہو جاتا ہے؟
یہ سارے سوالات ان پڑھنے والوں کے دماغ میں ڈال دیے جن کی عقل عام سطح سے ذرا اوپر لیکن وقت کی گتھی سلجھانے والی سطح سے بہت نیچے ہے۔ تو اب کیا کریں؟
زمینی حقائق کی بات کریں تو پھر وہی وقت کی قید۔ انسان لمحے لمحے میں بندھا ہوا۔ وقت پہ ہے تو نماز ورنہ قضا ۔وقت پہ گئی تو خبر ورنہ تاریخ کا حصہ۔ وقت پہ آفس پہنچے تو حاضری ورنہ چھٹی۔ پھر کیا کریں؟
چلیے وقت پہ کی گئی شاعری سے دل بہلاتے ہیں۔ ایک گیت یاد آ گیا۔
وقت کے دن اور رات
وقت کے کل اور آج
وقت کی ہر شے غلام
وقت کا ہر شے پہ راج
وقت پر کچھ مشہور اشعار بھی یاد آ رہے ہیں۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
(قابل اجمیری)
اس وقت کا حساب کیا دوں
جو تیرے بغیر کٹ گیا ہے
( احمد ندیم قاسمی)
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
( ناصر کاظمی)
اب مزید وقت لکھنے میں لگایا تو کالم وقت پر نہ پہنچ پائے گا لہٰذا اجازت!