انڈیا کا آئین بظاہر سیکیولر ہے جس میں ساری اقلیتوں کے تحفظ کا ذکر ہے اور انہیں وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو اکثریتی ہندو مذہب کے پیروکاروں کو حاصل ہیں۔
انڈیا کا آئین مسلمانوں، مسیحیوں، سکھوں، بدھوں، پارسی اور جین کو اقلیت تصور کرتا ہے اور ان کی موجودہ تعداد انڈیا کی آبادی کا 20 فیصد ہے۔ اس سیکیولر آئین کی وجہ سے کبھی کبھی اقلیتوں کے نمائندے اہم عہدوں بشمول صدر، نائب صدر اور وزیراعظم پر بھی فائز دکھائی دیتے رہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے:
بدقسمتی سے آئین کا مذہبی رواداری کا یہ اہم جزو اب آہستہ آہستہ اپنی موت مرتا دکھائی دے رہا ہے اور انڈیا اس وقت دنیا میں اقلیتوں پر مظالم اور ان کی نسل کشی میں پہلے درجے پر کھڑا ہے۔
اس آئینی اصول کی واضح روگردانی تو انڈیا کی آزادی کے تقریباً فوراً بعد شروع ہو گئی جو مختلف اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف نسل کش فسادات کی شکل میں نظر آئے۔ پہلے پہل یہ فسادات زیادہ تر متعصب انڈین ریاستوں میں دکھائی دیے اور ریاستی حکومتوں نے ان پر سختی سے قابو پانے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ 90 کی دہائی میں گجرات کی مودی حکومت نے مسلم کش فسادات کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ فسادیوں کو قانونی تحفظ بھی فراہم کیا۔ ان ہولناک مسلم کش فسادات کے بعد نہ صرف انڈیا بلکہ دنیا بھر میں موجودہ وزیراعظم مودی کو ’گجرات کا قصائی‘ کہا گیا اور امریکہ نے تو انہیں ویزا دینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔
گجرات کے قتل عام کے بعد انڈیا میں اقلیتوں کے لیے زندگی مزید دشوار ہو گئی جب ’گجرات کا قصائی‘ پورے ملک کا حکمران بن گیا۔ اس متشدد دور میں ریاستی اور مرکزی حکومتوں نے اقلیتوں پر جاری مظالم سے مکمل طور پر آنکھیں بند کر لی ہیں اور اس عمل کے دوران انتہا پسند ہندو جماعتوں کو نہ صرف قانون کا نفاذ کرنے والے بلکہ انصاف دینے والے اداروں کی بھی مکمل مدد حاصل ہے۔
مودی کے مرکز میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد انڈیا کو اقلیتوں سے مکمل طور پر صاف کرنے کے لیے بظاہر پُرفریب نام مگر انتہائی خوفناک منصوبے پر عمل درآمد شروع کیا گیا ہے جسے ’گھر واپسی‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت تمام اقلیتوں کو، جنہوں نے صدیوں پہلے یا حال ہی میں ہندو مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذاہب کو اختیار کیا ہے، انہیں ہندو مذہب کی طرف واپس لانا ہے۔
اس منصوبے کے مطابق انڈیا میں رہنے والے سب لوگوں کے آبا و اجداد ہندو تھے، اس لیے ان سب کو اپنے گھر یعنی ہندو مذہب کی طرف واپس لایا جائے یا انہیں واپس آنا چاہیے۔ اس منصوبے کے مطابق یہ مذہب کی تبدیلی نہیں بلکہ صرف اپنے ’اصلی گھر واپسی‘ ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے زبردستی، خوف دھونس، مالی لالچ اور ہر ممکن طریقہ کار کا استعمال کیا جارہا ہے اور حکومتی ادارے اس لاقانونیت پر خاموش ہیں۔
گھر واپسی مہم کی جڑیں انڈین متعصب ہندو جماعتوں کی بیسویں صدی کے شروع میں چلائی جانے والی شدھی تحریک سے ملتی ہیں۔ اس تحریک کے تحت ہندوؤں کی دوسرے مذاہب خصوصاً مسیحیت اور اسلام اختیار کرنے کے رجحان کو ہر حال میں روکنے کی کوشش کرنا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مودی کی مرکزی حکومت آنے کے بعد ان سب متعصب جماعتوں اور رہنماؤں کو ’گھر واپسی مہم‘ کو شد و مد سے چلانے میں اور حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ اس مہم میں کچھ ریاستی حکومتیں بھی مددگار ثابت ہو رہی ہیں اور ایسے قوانین بنائے جا رہے ہیں، جس کے تحت دوسرے مذاہب سے ہندو مذہب اختیار کرنے پر پابندی تو نہ ہو مگر ہندو مذہب سے کسی دوسرے مذہب کو اختیار کرنا یا جرم ہو یا اسے قانونی طور پر انتہائی مشکل بنا دیا جائے۔
اس بنیادی انسانی حق کی برسرعام پامالی پر بین الاقوامی خاموشی حیران کن ہے۔ اس سے زیادہ تعجب مسلمان ممالک کی زبان بندی پر ہے جو مسلمانوں کی جبری مذہبی تبدیلی پر انڈیا سے کسی قسم کا احتجاج نہیں کر رہے کیونکہ بیشتر مسلمان ممالک میں خود انسانی حقوق کی زیادہ پروا نہیں کی جاتی تو ان کی خاموشی کی سمجھ تو آتی ہے مگر مغربی ممالک جو جنوبی تیمور اور جنوبی سوڈان کو صرف مذہبی بنیادوں پر علیحدہ ممالک بنانے میں کامیاب ہوئے، جو چین میں مسلمان اویغور کمیونٹی کے ساتھ سلوک پر ہر وقت احتجاج کرتے رہتے ہیں، وہ اس غیر انسانی سلوک جس کا مسیحی مذہب کے پیروکار بھی شکار ہیں، انڈین حکومت سے احتجاج کیوں نہیں کر پاتے؟
یقیناً اس ہچکچاہٹ کی سیاسی اور معاشی وجوہات ہیں۔ ان ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیمیں کچھ دبا دبا سا احتجاج تو کرتی ہیں مگر ایسا سلوک کسی اقلیت سے مسلمان ملک میں کیا جا رہا ہوتا تو انہوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہوتا۔
انڈیا میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس غیر انسانی عمل پر احتجاج کریں اور مغربی ممالک کو مجبور کریں کہ وہ اس سلسلے میں انڈیا پر اقتصادی پابندیوں کے بارے میں سنجیدگی سے غور کریں اور انڈین حکومت کو مجبور کریں کہ کم ازکم انڈین حکومت اس مہم کو ادارہ جاتی سرپرستی، حمایت یا امداد نہ مہیا کرے۔
انڈیا میں ترقی پسند قوتوں کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اقلیتیں انڈیا کی آبادی کا 20 فیصد ہیں اور اتنی بڑی اقلیت کو مذہبی آزادی جیسے بنیادی انسانی حق سے محروم کرنا سیکیولر انڈیا اور ترقی پسند قوتوں کے لیے ایک دھبہ ہے۔ اگر اس طوفان کو بروقت نہ روکا گیا تو ممکن ہے کہ انڈیا ایک ہندو انتہا پسند ریاست بن جائے جس میں ہندو ترقی پسندوں کے لیے بھی رہنے کی کوئی جگہ نہ بچے۔
پاکستان کو انسانی حقوق کی اس بے دردانہ پامالی پر دنیا اور اہم بین الاقوامی اداروں کی توجہ دلانی چاہیے اور اس سلسلے میں ایک منظم سفارتی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے حال ہی میں جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیراعظم مودی کو ’گجرات کا قصائی‘ قرار دیا۔
انہیں وزارت خارجہ میں بھی اسی قسم کی سرگرمی دکھانے کی ضرورت ہے، جس سے انڈیا کی موجودہ حکومت کا یہ مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔