حیدرآباد دکن کے ایک صحافی ابو ایمل تلنگانہ میں تمام اسلامی طرز تعمیر عمارت کو دوبارہ آباد کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
ایمل اب تک تلنگانہ میں مسلم حکمرانوں کی جانب سے تعمیر کردہ کئی نامعلوم مساجد اور مزاروں کے کامیابی کے ساتھ دستاویزات تیار کر چکے ہیں۔ ابو ایمل نے صحافت میں کوئی تعلیمی ڈگری حاصل نہیں کی، تاہم صحافت میں ان کے سفر کی کہانی دلچسپ ہے۔
ابو ایمل کا اصل نام محمد اکرم علی ہے لیکن لوگ انہیں ابو ایمل کے نام سے جانتے ہیں جو ان کے ایڈیٹر نے 2006 میں انہیں دیا تھا۔
ابو ایمل کو اپنے کیرئیر کے شروعاتی دنوں میں وقف بورڈ سے متعلق خبروں کو رپورٹ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی جس کی وجہ سے انہیں مسلم حکمرانوں کے ورثے کے بارے میں بہت کچھ جاننے اور سیکھنے کو ملا۔
ایمل نے حیدرآباد میں کئی سرکردہ اردو روزناموں اور چینلوں کے لیے خصوصی نامہ نگار کے طور پر کام کرتے ہوئے 11 سال تک وقف بورڈ کی خبریں کور کیں۔
انڈیا میں وقف بورڈ کا کام اوقاف کی جائیدادوں کی نگرانی کرنا ہے چاہے وہ مسجد ہو، قبرستان یا پھر عیدگاہ۔ ابو ایمل نے کہا کہ کئی برسوں تک وقف بورڈ کی رپورٹنگ نے مجھے مسلم فن تعمیر کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کا موقع دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’میرے کام نے نہ صرف مجھے شہرت حاصل دلائی بلکہ میں تلنگانہ کے ساتھ ساتھ آندھرا پردیش میں بھی زیادہ تر اسلامی فن تعمیر اور جائیدادوں کو فوٹو گرافی اور ویڈیو کی شکل میں محفوظ کرنے میں کامیاب ہوپایا۔ ان میں سے زیادہ تر جائیداد کے بارے میں وقف بورڈ کو بھی علم نہیں تھا۔‘
ابو ایمل ایک صحافی کے طور پر انتظامیہ کی بدنیتی اور بھولے بسرے اسلامی طرز تعمیر کی عمارت کو عوام کی نظر میں لانے کا کام کر رہے تھے۔ تاہم وہ صرف رپورٹنگ تک ہی محدود نہیں رہنا چاہتا تھے اس لیے انہوں نے محسوس کیا کہ تبدیلی لانے کے لیے رپورٹنگ سے زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ تلنگانہ کے کئی مسجدوں کو کھنڈر میں دیکھنے کے بعد انہیں اس کی تحریک ملی۔
ابو ایمل کا یہ سفر آسان نہیں تھا۔ فنڈز کی کمی اور روزگار کے مواقع کم ہونے کے باعث یہ کام ایمل کے لیے مزید مشکل ہو گیا۔ تمام مشکلات کے باوجود ایمل نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے خواب کو ادھورا نہیں چھوڑا۔ ابو ایمل نے کہا کہ ’اب تک میں نے پورے تلنگانہ میں 42 مساجد کی تعمیر نو کی ہے۔ تلنگانہ میں تقریباً 400 مساجد خستہ حالی کا شکار ہیں اور کئی دہائیوں سے ان مساجد میں کسی نے نماز نہیں پڑھی تھی۔‘
حیدرآباد میں تقریباً 700 برس تک مسلمانوں کی حکومت رہی ہے، اس حکومت میں انہوں نے مساجد تعمیر کی ہیں، جہاں کبھی سفیر رہائش پذیر تھے۔ ان میں سے کئی مساجد ایسی جگہ واقع ہیں جہاں چاروں طرف ہندوؤں کی آبادی زیادہ ہے۔ ابو ایمل بتاتے ہیں کہ 'مجھے دور دراز کے دیہاتوں میں اورنگزیب اور دیگر حکمرانوں کی تعمیر کردہ تاریخی لحاظ سے بہت اہم مساجد ملی ہیں۔ چونکہ کوئی مسلمان خاندان ان مساجد کے آس پاس نہیں رہ رہا ہے، اس لیے وہ بند پڑی ہیں اور کھنڈرات میں تبدیل ہوگئی ہیں۔ اس وجہ سے مسجد کی بحالی کا کام ہمارے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔‘
جہاں انڈیا کی فضا میں اس وقت نفرت اور تشدد کی بو کو گھولا جارہا ہے، وہیں اس دور میں ایمل کو مساجد کی تعمیر نو کے دوران کچھ ایسے خوشگوار لمحات بھی دیکھنے کو ملے جب ہندوؤں نے ان کے ساتھ مل کر کام کیا اور انہیں پورا تعاون دیا۔
حیدرآباد شہر سے 48 کلومیٹر دور واقع سیتا پور گاؤں کے لوگوں نے ابو ایمل سے رابطہ کیا اور وہاں کھنڈر پڑی مسجد کی تعمیر نو کرنے کی تجویز رکھی۔
ابوایمل بتاتے ہیں کہ ’سیتارام پور گاؤں میں 200 ہندو خاندان اور دو مسلمان گھرانے آباد ہیں۔ یہاں عثمان علی پاشا کی تعمیر کردہ مسجد کھنڈر میں تبدیل چکی ہے۔ اس سلسلے میں گاؤں والوں نے مجھے بتایا کہ گاؤں کی خوبصورتی اور خوشحالی تب سے ختم ہو گئی ہے جس وقت سے مسجد بند ہوئی ہے اور ہم اسے دوبارہ تعمیر کرانا چاہتے ہیں تاکہ گاؤں میں خوشحالی واپس آ سکے۔ گاؤں والے فجر کی اذان سن کر اپنے دن کی شروعات کرتے ہیں اور اپنے کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہندوستان کی موجودہ صورتحال بہت تشویشناک ہے، مسلمانوں اور مساجد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے میں تمام مساجد کو اس امید کے ساتھ دستاویز کرنا چاہتا تھا کہ اس سے ہمیں انہیں بچانے میں مدد ملے گی۔‘ ایمل مستقبل کے بارے میں پر امید ہیں۔ ’مستبقل میں ہمارے بچے ان شاندار ورثے کو محفوظ کرسکے اور انہیں دوبارہ زندہ کرسکیں۔‘
مرکزی دھارے کے میڈیا اداروں میں کام کرنے کے دوران ابو ایمل کو محسوس ہوا کہ وہ مکمل طور پر اس پر توجہ نہیں دے پارہے ہیں اس لیے انہوں نے آزادانہ طور پر کام کرنا شروع کیا۔ ایمل نے کہا کہ ’گزشتہ چھ برسوں سے میں آزادانہ طور پر کام کر رہا ہوں۔ میرا ’آزاد رپورٹر‘ کے نام سے یوٹیوب چینل بھی ہے۔ عوام تعاون سے ہماری ٹیم جی جان سے کام کر رہی ہے۔‘
انہیں عوام کا پورا ساتھ ملا ہے۔ ان کے چینل کو کئی لوگوں نے فالو کیا ہے جس سے انہیں مالی طور پر آگے بڑھنے میں مدد ملی ہے۔ ’میں اب خود کو صحافت تک محدود نہیں رکھ رہا ہوں۔ میں اپنی آمدنی کا نصف حصہ جو میرے چینل کے ذریعے آتا ہے سماجی مسائل کو حل کرنے کے لیے عطیہ کر رہا ہوں۔‘
حیدرآباد یا تلنگانہ میں مختلف ادوار میں مسلم حکمرانوں کی طرف سے، چاہے وہ قطب شاہی کا دور ہو یا بہمنی اور آصفی جاہی کا دور بہت سی مساجد تعمیر کرائی گئی لیکن حکومت کے پاس ان مساجد کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ میں نے ان تمام مساجد کو فوٹوگرافی یا ویڈیو گرافک شکل دے کر محفوظ کر لیا ہے۔ خدا کے فضل و کرم سے اب تک میں 42 مساجد کو آباد کر چکا ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’تلنگانہ میں تقریباً 372 مساجد کھنڈر ہوگئی ہیں جن میں سے محض چند مساجد کو ہی دوبارہ آباد کرنے میں کامیاب ہو پایا ہوں۔ 700 سال تک حیدرآباد دکن پر مسلماںوں کی حکومت تھی اور جب بھی مسلمان حکمران شاہی وفد کے دوران قیام کرتے تو وہ ایک مسجد ضرورت تعمیر کرواتے تھے۔‘
’موجودہ حالات میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ہراساں کیا جا رہا ہے۔ مجھے یہ فکر ہمیشہ ہوتی ہے کہ ان مساجد کی حفاظت کیسے کی جائے اور اسی سوچ و فکر کے ساتھ میں تلنگانہ کے دور دراز مقامات کا سفر کرتا ہوں تاکہ ان مساجد کو دستاویزی شکل دے کر ان کو زندہ کر پاؤں۔‘
’بہت سی مساجد ایسی ہیں جن کی تزئین کاری کرنا ناممکن ہے کیونکہ آس پاس کا علاقہ ہندو آبادی والا ہے اور میں ایسی جگہوں پر ان مساجد کو تصویر اور ویڈیو کی شکل دے کر انہیں محفوظ کرتا ہوں۔ گزشتہ پانچ چھ برسوں سے میں آزاد رپورٹ میں ایک آزادانہ صحافی کے طور پر کام کر رہا ہوں اور یہ مجھے آزادی سے کام کرنے کا موقع دیتا ہے۔‘
’میں حکومت تلنگانہ اور تمام مسلم رہنماؤں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ان مساجد پر توجہ دیں تاکہ ان کے وجود کو بچایا جاسکے۔ حیدرآباد میناروں کا شہر ہے اور اس کے تحفظ کے لیے ہم سب کو مل کر کام کرنا چاہیے۔‘
’سیتارمن پور گاؤں جو حیدرآباد سے 48 کلومیٹر دور ہے، میں 200 سے زیادہ ہندو گھرانے ہیں اور وہاں صرف دو مسلمان خاندان رہتے ہیں۔ وہاں ایک مسجد تھی جو نظام نے بنوائی تھی اور وہ خستہ حالی کا شکار تھی۔ اس مسجد کے صحن میں گاؤں کے مویشی رہتے تھے۔‘
’جب میں وہاں گیا تو ہندو بھائی نے مجھ سے مسجد کو بحال کرنے کی گزارش کی۔ میں اس خدشے کے ساتھ وہاں گیا تھا کہ کہیں یہ مسجد کی حالت خراب تو نہیں کیونکہ اس گاؤں میں ہندو اکثریت میں تھی۔ ہمیں مساجد کی تعمیر نو میں تین چار ماہ لگے اور ہندو یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ 70 سال سے زیادہ عرصے سے بند مسجد کو اب نماز کے لیے کھول دیا گیا ہے۔‘
اس گاؤں کے تمام رہائشی نماز عصر کے بعد مسجد کے صحن میں املی کے درخت کے پاس جمع ہوتے ہیں تاکہ امام سے اسلامی آیات حاصل کریں۔گاؤں والوں کی طرف سے مجھے جو پذیرائی اور تعاون ملا ہے وہ قابل تعریف ہے اور میں اسے کبھی نہیں بھولوں گا۔