امریکہ نے پاکستان میں جاری اقتصادی بحران کے حوالے سے کہا ہے کہ واشنگٹن پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم دیکھنا چاہتا ہے لیکن یہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان کا معاملہ ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس سے پریس بریفنگ کے دوران پاکستان کے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر اور اس سے جنم لینے والے معاشی بحران کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک چیلنج ہے جس سے ہم واقف ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ کام کر رہا ہے۔‘
ان کے بقول :’ہم پاکستان کو معاشی طور پر پائیدار دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے بات چیت جاری ہے جیسا کہ ہم اپنے پاکستانی شراکت داروں میں سے جہاں تک ممکن ہو تعاون کرتے ہیں لیکن آخر کار یہ پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے درمیان بات چیت پر منحصر ہے۔‘
پاکستان کے لیے معیشت کے حوالے سے فوری اقدامات اور اس حوالے سے امریکی تجاویز کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے نیڈ پرائس نے کہا کہ ’ہمارے پاکستانی شراکت داروں کے ساتھ ہونے والی یہ گفتگو اکثر تکنیکی ایشوز پر مبنی ہوتی ہے۔‘
’اکثر اوقات یہ محکمہ خزانہ اور ہمارے پاکستانی شراکت داروں کے درمیان جاری رہتی ہے لیکن پاکستان کا میکرو اکنامک استحکام محکمہ خارجہ اور ہمارے ہم منصبوں، وائٹ ہاؤس، محکمہ خزانہ اور دیگر محکموں کے درمیان بات چیت کا اہم جزو ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان ان دنوں شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے جہاں بعض رپورٹس کے مطابق اس کے زرمبادلہ کے ذخائر پانچ ارب ڈالر سے بھی نیچے گر چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان بیل آؤٹ پیکیج کی بحالی کی کوششوں میں مصروف ہے جبکہ آئی ایم ایف کی طرف سے ایک ارب 10 کروڑ کے اجرا کی منظوری باقی ہے۔
یہ رقم بنیادی طور پر گذشتہ سال نومبر میں جاری ہونا تھی، جس کی قسط جاری نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کے پاس صرف ایک ماہ کی برآمدات کی ادائیگیوں کے لیے زرمبادلہ رہ گیا ہے۔
پاکستان اس صورت حال میں دوست ممالک اور مالیاتی اداروں کی مدد کا منتظر ہے۔
لیکن ٹائم لائن ترتیب دینے کا منصوبہ اور تعمیر نو کی کوششوں میں مالی معاونت آئی ایم ایف کی طرف سے نویں جائزے کی راہ ہموار کرنے کے ہونے والی بات چیت کا ایک اہم نکتہ رہا ہے۔
اس جائزے کے تحت آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر ادا کیے جائیں گے جب کہ اس سے دوسری بین الاقوامی فنڈنگز کا راستہ بھی کھلے گا۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار حال ہی میں آئی ایم ایف پر تنقید کر چکے ہیں۔ انہوں نے عوامی سطح پر کہا کہ قرضہ دینے والا ادارہ پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرنے میں ’خلاف معمول‘ کام کر رہا ہے۔
پاکستان اور آئی ایف کے درمیان 2019 میں سات ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پروگرام طے پایا تھا۔