جبار خان بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ہیں۔ انہوں نے زندگی بھر کی جمع پونجی ڈالروں کی شکل میں پاکستان میں فارن کرنسی اکاؤنٹ میں رکھی ہوئی ہے۔
پاکستانی وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار صاحب نے چند دن پہلے جب نجی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے جب کہا کہ ’کمرشل بینکوں کے پاس موجود چھ ارب ڈالر بھی پاکستان کی ہی ملکیت ہیں،‘ تو جبار خان نے ڈالر پاکستان سے نکالنے کا فیصلہ کر لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ن لیگ ہی کی حکومت نے 1998 کے معاشی بحران میں بھی کمرشل بینکوں میں موجودہ فارن کرنسی اکاؤنٹ منجمد کر دیے تھے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ وہ دوبارہ پرانی روایت کو دہرانے جا رہے ہیں۔ جب ملک کے حالات بہتر ہوں گے تو وہ ڈالر پاکستان واپس لے آئیں گے لیکن موجودہ حالات میں وہ اتنا بڑا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔‘
اس حوالے سے ایک نجی بینک کے سینیئر نائب صدر بابر علی پیرزادہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب سے اسحاق ڈار صاحب نے یہ بیان دیا ہے ہماری برانچوں سے لاکھوں ڈالر کسٹمرز نکال کر لے جا چکے ہیں۔ اب یہ صورت حال ہے کہ اگر کسی کسٹمر کو ڈالر درکار ہوں تو تین چار دن کے انتظار کے بعد بھی بینکس کسٹمرز کے رکھے ہوئے ڈالر انہیں نہیں دے پا رہے ہیں۔ کسٹمرز نے کچھ برانچوں پر حملہ کر کے توڑ پھوڑ بھی کی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’گو ڈار صاحب نے وضاحت دی ہے کہ حکومت ڈالرز اکاؤنٹ کو منجمد کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ 1999 سے پہلے پاکستان میں غیر ملکی زرمبادلہ کا ہر سینٹ سٹیٹ بینک میں جاتا تھا، فروری 1999 میں ہم نے اس کو تین حصوں میں تقسیم کیا اور 30 جون 1999 کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر کے حجم کا طریقہ کار تبدیل ہوا، لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ عوام کو ڈار صاحب کی باتوں پر اعتبار نہیں ہے اور وہ دھڑا دھڑ ڈالر نکلوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
ایک سابق گورنر سٹیٹ بینک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگر حکومت چاہے تو معاشی ایمرجنسی کی صورت میں نجی بینکوں میں رکھے گئے ڈالر کو منجمد کر سکتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عوام کے ڈالر غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔ حکومت اس کے بدلے میں پاکستانی روپے ادا کرے گی۔ سوال ایکسچینج ریٹ کا ہے۔ انٹربینک میں ریٹ 228 روپے ہے جبکہ حقیقی ریٹ 265 روپے ہے۔ سرکار انٹربینک کے حساب سے ادائیگی کرے گی تو عوام کو فی ڈالر 37 روپے کا نقصان ہو گا۔ ایسی صورت حال میں ڈالر کیش نہ کروانا بہتر ہے۔ جب حالات نارمل ہوں تب بینکوں سے ڈالروں کے بدلے ڈالر وصول کر لیے جائیں۔‘
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اسحٰق ڈار صاحب کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔ 1998 میں جب اکاؤنٹس منجمد ہوئے تھے اس وقت انٹربینک ریٹ 42 روپے تھا لیکن حکومت نے 46 روپے کے حساب سے ادائیگی کی تھی۔ اوّل تو حکومت عوامی ڈالروں پر قبضہ نہیں کرے گی۔ اگر ایسا ہو بھی گیا تو انہیں اچھا ریٹ ملے گا۔ ہم موجودہ حالات میں حکومت کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔ حکومت کرنسی چینجروں کو 50 ہزار تک کی ایل سی کھولنے کی اجازت دے۔ اس کے علاوہ بینکس 50 ہزار تک کی جن ایل سیز کی ادائیگی نہیں کر پارہے وہ بھی کرنسی چینجروں کے ذمہ لگا دیے جائیں۔ اس سے حکومت کو سالانہ چھ سے سات ارب ڈالروں کا فائدہ ہو گا۔ اور کمرشل بینکوں میں موجود ڈالر کے غیر محفوظ ہونے کا تاثر بھی کم ہو جائے گا۔‘
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کمرشل بینکس کے ڈالرز منجمد کرنے کا مرحلہ ابھی دور ہے۔ پاکستان کے پاس ابھی چار ارب ڈالر موجود ہیں۔ میرے مطابق اتنی دیر میں آئی ایم ایف پروگرام پٹری پر آ جائے گا اور دوست ممالک بھی مدد کر دیں گے۔ لیکن اگر حکومت ہٹ دھرمی پر قائم رہی اور ایکسچینج ریٹ نہ بڑھایا تو پھر نہ ہی کمرشل بینکس میں موجود ڈالر محفوظ رہیں گے اور نہ ہی پاکستانی معیشت محفوظ رہے گی۔ ہر چیز ہاتھ سے نکل جائے گی۔ نو مہینے ہو گئے ہیں آئی ایم ایف کا پروگرام بحال نہیں ہو سکا ہے۔ جتنی جلدی یہ بحال ہو جائے گا اتنی ہی جلدی کمرشل بینکس کے ڈالر اور ملکی معیشت محفوظ ہو جائے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر حفیظ پاشا نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ڈار صاحب کو یہ بیان نہیں دینا چاہیے تھا۔ ان کی اس حوالے سے شہرت پہلے ہی اچھی نہیں ہے۔ 1998 عوام ابھی بھولی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ذرا یہ دیکھ لیں کہ حکومت نے کمرشل بینکوں سے کتنے قلیل مدتی قرض لے رکھے ہیں۔ آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ کمرشل بینکوں کے ڈالر محفوظ ہیں یا نہیں۔ حکومت عوام کے ڈالر ان سے پوچھے بغیر استعمال کرتی رہتی ہے۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔‘
لاہور چمبر آف کامرس انڈسٹریز پروگریسو گروپ کے صدر خالد عثمان نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ڈار صاحب کے بیان کی وجہ سے ایکسپورٹرز دبئی میں رقم وصول کر رہے ہیں اور پاکستان نہیں لا رہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ان کا پیسہ غیر محفوظ ہے۔ موجودہ حالات 1998 سے بدتر ہیں۔ اس وقت بینکوں میں عوام کے چھ ارب ڈالر تھے اور معیشت کا حجم تقریباً 66 ارب ڈالر تھا۔ آج معیشت کا سائز تقریباً 350 ارب ڈالر ہے اور عوام کے صرف چھ ارب ڈالر ہیں جو کہ تقریباً 35 ارب ڈالر ہونے چاہیے تھے۔ عوام کو حکومت پر اعتماد نہیں اور وہ بھی سمجھتے ہیں کہ سرکار کسی بھی وقت ان کے ڈالر ضبط کر لے گی۔‘
ماہرین اور سٹیک ہولڈرز کی رائے کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ حکومت کمرشل بینکوں میں موجود ڈالروں پر فی الحال قبضہ نہیں کر رہی، لیکن اگر اگلے 15 دنوں میں درست فیصلے نہ لیے گئے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔