فلپائن سے تعلق رکھنے والی نوبل انعام یافتہ ماریہ ریسا کا کہنا ہے کہ وہ ہر وقت عدالتی مقدمات میں فوری ضمانت کے لیے نقدی کے علاوہ جیل میں کام آنے والی اشیا پر مبنی ’گو بیگ‘ تیار رکھتی ہیں۔
نیوز ویب سائٹ ریپلر کی ایڈیٹر کو گذشتہ بدھ کو ٹیکس چوری کے چار الزامات سے بری کر دیا لیکن وہ مزید تین مقدمات کے لیے تیار ہیں جس کی وجہ سے انہیں خدشہ ہے کہ انہیں جیل بھیجا جا سکتا ہے یا ان کا آن لائن نیوز ادارہ بند ہو سکتا ہے۔
انسٹھ سالہ ماریہ نے ’ریپلر‘ نامی ایک آن لائن نیوز ادارہ 2012 میں قائم کیا تھا جس نے فلپائن کے صدر رودریگو دوترتے کے خلاف مالی بدعنوانی کی خبریں چھاپ کر شہرت حاصل کی، اور خود بھی سرکاری پکڑ دھکڑ کی لپیٹ میں آ گیا۔
ریپلر اور ماریہ کے خلاف درجنوں کیس بنائے گئے جن میں ٹیکس فراڈ کے کیس بھی شامل تھے۔ 2021 میں امن کا نوبیل انعام جیتنے والی ماریہ کی اس فتح کو انسانی حقوق اور پریس کی آزادی کی فتح سمجھا جا رہا ہے۔
تاہم گذشتہ بدھ کو فلپائن کی ٹیکس عدالت نے قرار دیا کہ استغاثہ ماریہ اور ریپلر کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔
صدر کی پالیسیوں کے خلاف جدوجہد
2021 میں ماریہ ریسا اور روس کے دمتری موراتوف کو امن انعام سے نوازنے کا اعلان کرتے ہوئے نوبیل کمیٹی نے ان دونوں صحافیوں کو ’ان تمام صحافیوں کے نمائندے قرار دیا جو اس مقصد کے لیے کھڑے ہیں۔‘
کمیٹی کا کہنا تھا کہ ریسا نے اپنی آن لائن نیوز آرگنائزیشن ریپلر کے ذریعے اپنے آبائی ملک فلپائن میں ’تشدد، طاقت کے غلط استعمال اور بڑھتی ہوئی آمریت کو بے نقاب کیا۔‘
ریسا فلپائن سے امن کا نوبل انعام جیتنے والی پہلی شخصیت ہیں۔
ریپلر جو 2012 میں شروع کیے گئے ایک فیس بک پیج سے پروان چڑھا، اب فلپائن کے سب سے معتبر آزاد صحافتی اداروں میں سے ایک بن گیا ہے جس نے 2016 میں منتخب ہونے والے صدر رودریگو دوترتے کی آمرانہ پالیسیوں کو نشانہ بنایا ہے۔
صدر رودریگو نے 2017 کی اپنی سٹیٹ آف یونین تقریر میں ریسا کے جریدے کو غیر ملکی ملکیتی ادارہ قرار دیتے ہوئے اسے آئین کے منافی کہا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریپلر نے ’جعلی خبروں‘ کو فروغ دیا۔
اس کے بعد جریدے کے خلاف حکومتی تحقیقات کا آغاز ہوا اور 2018 تک ماریہ ریسا اور ریپلر پر سائبر کرائم اور ٹیکس چوری کے الزامات لگائے گئے اور اتنا دھمکایا جتنا دوترتے حکومت ان کے خلاف جا سکتی تھی۔
ان کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ صدارتی منظوری سے ہونے والی نام نہاد ’منشیات کے خلاف جنگی‘ مہم کے دوران ہونے والے قتل عام کے پس منظر میں شروع ہوا۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت اب اس حکومتی مہم کی تحقیقات کر رہی ہے جس کے دوران ملک بھر میں صحافیوں سمیت 20 ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے۔
نوبل امن انعام کی مشترکہ فاتح ماریا ریسا نے ایوارڈ کی تقریب کے موقع پر کہا کہ دنیا بھر کے میڈیا کو ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کی بجائے آزادی صحافت کو لاحق خطرات کے خاتمے کی ’حقائق کی لڑائی‘ میں ساتھ دینا چاہیے۔
’میرے خیال میں یہ وہ وقت ہے جب ہم حقائق کے لیے لڑ رہے ہیں اور ہمیں تعاون کے نئے طریقے تلاش کرنے کی ضرورت ہے، نہ صرف اپنے ممالک میں بلکہ عالمی سطح پر بھی۔‘
یہ پوچھنے پر کہ انعام کا ان کے لیے کیا مطلب ہے، ریسا نے اس کا موازنہ ’ایک روشنی سے کیا جو بہت طریقوں سے ایک ڈھال ہے۔‘
ریسا ان دھمکیوں سے نہیں گھبرائیں جس کے اعتراف میں ٹائم میگزین نے انہیں دنیا بھر میں جبر کا سامنا کرنے والے دیگر صحافیوں کے ساتھ 2018 میں پرسن آف دی ایئر کے فاتحین میں سے ایک قرار دیا۔
جب انہیں 2019 میں پہلی بار گرفتار کیا گیا تو اس وقت 56 سالہ ریسا جو ملک کی سب سے ممتاز صحافی تھیں، کو سلاخوں کے پیچھے رات گزارنے پر مجبور کیا گیا جو کہ فلپائن میں سول سوسائٹی کے لیے پستی کا باعث تھا۔
ریسا اور ریپلر کے دیگر ساتھی قید کے خطرے کے ساتھ اب بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ریسا صدر رودریگو کے خاردار اقتدار میں چمکتا ستارہ
رودریگو دوترتے کے منتخب ہونے سے بہت پہلے ماریہ ریسا فلپائنی عوامی زندگی کی جانی مانی شخصیت تھیں۔ وہ 1987 سے 1995 تک فلپائن میں بیورو چیف کے طور پر امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کا مشہور چہرہ تھیں۔
سی این این کے لیے تحقیقاتی رپورٹر کے طور پر انہوں نے جنوب مشرقی ایشیا میں نائن الیون حملوں کے بعد دہشت گردی پر توجہ مرکوز کی۔
گرفتاری کے لیے تیاری
2018 کے اوائل میں ملک کے کارپوریٹ ریگولیٹر کی جانب سے ریپلر کو بند کرنے کا حکم جاری کرنے کے بعد، ریسا نے کہا کہ اس نے اپنی 23 سال کی اوسط عمر کے نوجوان ورک فورس پر مبنی 120 افراد کو اکٹھا کیا اور پیشکش کی کہ اگر وہ ملازمت چھوڑنا چاہتے ہیں تو نئی ملازمتیں تلاش کرنے میں ان کی وہ مدد کریں گی۔ ان کی اسے پیشکش کو کسی نے قبول نہیں کیا۔
انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’میرے خیال میں ان چھ سالوں نے - ہم اصل میں سات سال کے ہونے والے ہیں - ہمیں مضبوط بنایا ہے۔ وہ ٹھیک کہتے تھے جو چیز آپ کو مار نہیں سکتی وہ آپ کو مضبوط بناتی ہے۔‘
ماریہ ریسا نے کہا کہ انہوں نے 2020 میں سائبر کرائم کا مجرم ٹھہرائے جانے کے بعد کپڑوں، چادر اور ٹوتھ پیسٹ پر مبنی ایک ہنگامی بیگ اپنے پاس تیار رکھا ہوا ہے۔
’ایک وقت ایسا تھا جب میں ہر وقت ضمانت کی رقم اپنے ساتھ رکھتی تھی کیونکہ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ہمیں کب گرفتار کیا جائے گا۔‘
انہیں اور ریپلر کے عملے کو آن لائن ہراساں کرنے اور جان سے مارنے کی دھمکیوں سے بھی نمٹنا پڑا ہے۔
ریسا نے، جن کے پاس امریکی پاسپورٹ بھی ہے، اصرار کیا کہ وہ قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے کبھی ملک نہیں چھوڑیں گی۔
’میں کل رات کی نسبت آج بہت زیادہ پر امید ہوں۔‘
2004 میں انہوں نے فلپائن کی بڑی میڈیا کمپنی اے بی ایس سی بی این میں شمولیت اختیار کی اور چھ سال تک اسے ملک کے سب سے بڑے نیوز نیٹ ورک بنانے میں مدد کی حالانکہ صدر رودریگو دوترتے 2020 میں ان کے کام پر پابندی لگا دی تھی۔
یہ ریسا کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ فلپائن میں میڈیا پر ان کے مضبوط اثر کے باعث نوجوان صحافی ان کے مشورے اور مثال پر عمل پیرا ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماریہ ریسا کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ ان کی تازہ ترین کتاب ’ڈکٹیٹر کے خلاف کیسے اٹھ کھڑے ہوں: ہمارے مستقبل کی جنگ‘ (How to Stand Up To a Dictator: The Fight for Our Future) ہے، جو دسمبر 2022 میں شائع ہوئی۔
اس کتاب میں ماریہ نے اپنے خلاف بننے والے کیسوں کی تفصیل بیان کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ کیسے آزادیِ اظہار پر قدغنیں لگا کر لوگوں کی آزادیاں صلب کی جاتی ہیں۔
ماریہ ریسا نے نوبیل انعام کے علاوہ بھی متعدد بین الاقوامی اعزازات حاصل کیے ہیں۔ اس سے قبل وہ 2017 کا ڈیموکریسی ایوارڈ، 2018 کا نائٹ انٹرنیشنل جرنلزم ایوارڈ، اسی سال ورلڈ ایسوسی ایشن آف نیوز پیپرز کا گولڈن پین آف فریڈم ایوارڈ اور کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کا گیون ایفل پریس فریڈم ایوارڈ بھی اپنے نام کر چکی ہیں۔
اس کے علاوہ 2018 میں فیک نیوز کے خلاف لڑنے کے اعتراف میں ٹائم میگزین کی سال کی شخصیات میں بھی شامل کیا گیا تھا۔
حالیہ برسوں میں دنیا بھر کی معروف شخصیات اور تنظیموں کی جانب سے باقاعدگی سے ان کے خلاف چلائے گئے مقدمات کی مذمت کی گئی ہے۔