جرمنی کا یہ نوجوان گاؤں میں ہمارے ڈیرے پر پانچ روز تک مہمان رہا تھا۔ اسے اردو زبان سیکھنے کا شوق تھا۔ اپنے ملک کے کسی ادارے سے اردو کی ابتدائی تعلیم پانے کے بعد اس نے اس زبان پر مزید دسترس حاصل کرنے کی خاطر اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔
وہاں وہ ہمارے بھائی کا کلاس فیلو تھا۔ گورے کو اردو کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کا کلچر خصوصاً دیہاتی زندگی دیکھنے کا شوق چرایا تو وہ غریب خانے میں ہمارا مہمان ہوا۔ دسمبر کا مہینہ تھا۔ گورا دن بھر اردگرد کے دیہات میں گھومتا پھرتا اور رات کو ہم لوگوں کے ساتھ ایک کچے کوٹھے میں آگ کے الاؤ کے گرد گھاس پر بیٹھ کر تادیر گپیں ہانکتا۔ وہ اردو سمجھتا تھا، سو اسے ہماری دیہی زندگی کے مطالعہ میں چنداں مشکل پیش نہ آئی۔ قبل ازیں وہ اسلام آباد میں اپنے قیام کے دوران پاکستانیوں کے چال چلن کا سیر حاصل مطالعہ کر چکا تھا۔
مغرب سے اپنے تمام تر روایتی بخل کے باوجود ہم تسلیم کرتے ہیں کہ گورا حالات کے ادراک کی معقول صلاحیت کا حامل تھا۔ دوسرے ہی دن اس نے غیر اخلاقی قسم کے سوالات اٹھانے شروع کر دیے۔ رات کو ہماری ساری مہمان نوازی پر پانی پھیرتے ہوئے کہنے لگا، ’تم لوگ کوئی کام نہیں کرتے تو میں حیران ہوں کہ تمہارا ملک چل کیسے رہا ہے؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہم نے اس کی غیر ذمہ دارانہ گفتگو سے اخذ کیا کہ اسے سب سے زیادہ حسد ہم لوگوں کے پاس موجود وافر وقت کی نعمت سے ہے۔ گورے نے اپنی فضول گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’تمہارے ہاں پرائیویسی کا کوئی تصور نہیں۔ جب میں صبح کے وقت تمہاری بیٹھک کے صحن میں دھوپ سینکنے بیٹھتا ہوں تو گلی میں سے جو بھی گزرتا ہے وہ ’ہور سنا گوریا‘ کہہ کر لا محدود وقت کے لیے میرے ساتھ چارپائی پر بیٹھ جاتا ہے اور میرے اور میرے ملک کا مفصل حال احوال دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ پر اپنے گراں قدر خیالات سے بھی زبردستی مجھے نوازنا شروع کر دیتا ہے۔‘
گوری چمڑی والے خوش شکل جرمن نے کچھ شرفا کے خلوص کا غلط مطلب لیتے ہوئے ان کے بارے میں یہ شرمناک سی شکایت بھی کی کہ وہ چارپائی پراس کے ساتھ نہایت غیر اخلاقی انداز میں چپک کر بیٹھ جاتے ہیں اور مسلسل اس کا ہاتھ پکڑے رکھتے ہیں۔
ہمیں گورے کی پست ذہنیت پر بڑا افسوس ہوا مگر ہم نے تحمل کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اسے جواب دیا ’دیکھو گورے، یہ تمہارا غیر فطری معاشرہ نہیں، جہاں محبوبہ سے ملنے کے لیے بھی وقت لینا پڑتا ہے۔ ہماری معاشرتی اقدار وضع داری اور اعلیٰ ظرفی کی مضبوط بنیادوں پر استوار ہیں۔ مہمان کی عزت افزائی اور اسے اپنا قیمتی وقت دینا ہماری روایات میں شامل ہے، باقی دنیا کے کام تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔‘
تاہم گورے کی کھوپڑی میں یہ بات نہ آ سکی اور اس کی سوئی آخری دن تک ایک ہی بات پر اٹکی رہی۔ کہتا تھا کہ ’جب صبح تمہارے گاؤں کا کوئی شخص دفتر، کاروبار، مزدوری یا کھیتی باڑی کے لیے گھر سے نکلتا ہے تو اس کے شیڈول میں مجھ سے ملاقات کا وقت شامل نہیں ہوتا، پھر وہ کیسے میرے لیے گھنٹہ، دو گھنٹے نکال لیتا ہے اور اس کا کام یا ملازمت کیسے چلتے ہیں؟‘
ہم نے دوبارہ اسے نرمی سے سمجھاتے ہوئے کہا کہ دنیا کے کام نہیں رکتے جانو جرمن، تم اپنے دماغ پر زیادہ بوجھ مت ڈالو۔
گورے کے اس مطالعاتی دورے کے دوران قریبی گاؤں میں ایک شادی کی تقریب منعقد ہوئی۔ میزبانوں نے از راہِ مروت گورے کو بھی دعوت دی۔ دعوتی کارڈ پر تقریب کا وقت دن ایک بجے لکھا تھا۔ وہ خوشی خوشی وقت سے پہلے ہی تیار ہو گیا مگر ہم لوگوں کی تیاری کے لچھن دیکھ کر پریشان سا ہو گیا۔ نادان گورا بار بار گھڑی دیکھتا اور اضطراری کیفیت میں ٹہلتے ہوئے ایک کھوکھلا سا جملہ دہراتا جاتا تھا، ’ہمیں وقت پر پہنچنا چاہیے، ورنہ لیٹ ہو جائیں گے۔‘
گورے کی بچگانہ ضد کی بنا پر ہم زندگی میں پہلی دفعہ کسی تقریب میں وقت پر پہنچ گئے۔ بارات تین گھنٹے لیٹ آئی۔ اس دوران گورا ہونقوں کی طرح کبھی ہمیں، کبھی میزبانوں اور کبھی خالی پنڈال کو دیکھتا رہا، مگر بے چارا شدت غم سے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے قاصر رہا۔ جب کھانا کھلا تو لوگوں کی دھکم پیل اور چھینا جھپٹی دیکھ کر گورا خوفزدہ ہو گیا۔ کھانے کی اس ’جنگ‘ کے دوران کسی کم بخت کو دھکا لگا اور قورمے کی ایک پوری پلیٹ گورے کے کپڑوں پر خوبصورت نقش و نگار بنا گئی۔ یار لوگوں نے اس پر خوب قہقہے لگا کر اس کی حوصلہ افزائی کی۔
ایک دن اپنے کندھے سے بوسیدہ سا بیگ لٹکائے ایک گشتی حکیم وارد ہو گیا اور بغیر گورے کی درخواست کے زبردستی اس کی نبض چیک کر ڈالی۔ نیم حکیم کافی دیر تک اس کی نبض سے چپکا رہا اور پھر متفکر انداز میں لال سرخ گالوں والے ہٹے کٹے گورے کو جگر، معدہ و مثانہ کی گرمی اور مردانہ کمزوری کے علاوہ دیگر ایسے ایسے پوشیدہ امراض کی نوید سنائی کہ جن سے جرمنی کے ڈاکٹر بھی اگاہ نہ ہوں گے۔ نیم حکیم نے بیگ سے دواؤں کی چار پانچ چھوٹی چھوٹی شیشیاں نکال کر گورے کو دیں اور ہدایت کی کہ اسے باقاعدگی سے علاج کرانا ہوگا۔ حکیم نے اسے اپنا وزٹنگ کارڈ بھی دیا اور بتایا کہ ملتان میں میرا بہت بڑا دواخانہ ہے، جہاں ان دواؤں کی قیمت بہت زیادہ ہے، البتہ اس وقت میں کمپنی کی مشہوری کی خاطر انہیں دس،دس روپے میں فروخت کر رہا ہوں۔ جاتے جاتے حکیم صاحب نے گورے کو ہدایت کی کہ وہ دو ہفتے بعد ضرور اس کے دواخانے پر آئے تاکہ علاج جاری رکھا جا سکے اور گورے کی مردانہ کمزوری کو رفع کر کے اسے ممکنہ شرمندگی سے بچا یا جا سکے۔ حکیم صاحب نے اُسے یہ بھی ہدایت کی کہ آنے سے قبل فون پر وقت لے لے، کیونکہ دواخانے پر بہت رش ہوتا ہے۔ گورا یہ ساری کارروائی حیرت سے دیکھتا رہا اور حکیم صاحب قبلہ کے جانے کے بعد اس نے ان کی حکمت پر کافی ہرزہ سرائی کی اور کئی غیر ضروری سوالات اٹھائے۔ مثلاً پوچھتا تھا کہ اگر اس کا اتنا بڑا مطب ہے تو پھر یہ بسوں میں دھکے کھا کر اور قریہ قریہ جوتیاں چٹخا کر کیوں کمپنی کی مشہوری کر رہا ہے؟
گورے کے قیام کے دوران ہمارے قومی وقار کو کئی اور بھی دھچکے لگے۔ ایک دن وہ بیٹھک پر اکیلا بیٹھا تھا کہ کسی نامعلوم ٹھگ کا وہاں سے گزر ہوا۔ گورے کو اکیلا دیکھ کر ٹھگ کی رگِ فراڈ پھڑک اٹھی اور کمینے نے اسے رقم ڈبل کر کے دینے کی پیش کش کر دی۔
ڈبل شاہ کی لچھے دار بکواس کے باوجود گورے کا دماغ اس کے جادو کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہوا، مگر بیچارہ تجسس اور ’شوق مطالعہ‘ کے ہاتھوں مارا گیا۔ ٹھگ ملکی وقار کو خاک میں ملاتے ہوئے اسے دس ہزار روپے کا ٹیکہ لگا گیا۔ گورے نے پولیس سٹیشن جانے کی بڑی ضد کی مگر وقار خان ملکی وقار کو لگنے والے اتنے بڑے ممکنہ دھچکے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔
ہمارے معاشرے کا حسب توفیق مطالعہ کر چکنے کے بعد جب گورا اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا تو جاتے جاتے اس نے پھر اپنا زنگ آلود سوال دہرایا کہ ’میں حیران ہوں، تمہارا ملک چل کیسے رہا ہے؟‘
ہم نے اس کے نامعقول سوال کا کوئی جواب نہ دیا مگر دل میں کہا، ’یہاں سب چلتا ہے مردِ افرنگی، ٹھگی چلتی ہے، دو نمبری چلتی ہے، فراڈ چلتا ہے، ملاوٹ چلتی ہے، ذخیرہ اندوزی چلتی ہے، مہنگائی چلتی ہے، جھوٹ چلتا ہے، کمیشن چلتا ہے، کِک بیکس چلتے ہیں، چکر چلتے ہیں، آمریت چلتی ہے، گائیڈڈ جمہوریت چلتی ہے، جہالت چلتی ہے، انتہا پسندی چلتی ہے، دہشت گردی چلتی ہے، بم چلتے ہیں، گولیاں چلتی ہیں، سمگلنگ چلتی ہے، سازشیں چلتی ہیں، دھرنے چلتے ہیں، شاہراہوں کی بندش چلتی ہے، نان ایشوز چلتے ہیں، دھاندلی چلتی ہے، جعلی ڈگریاں چلتی ہیں، جعلی ادویات چلتی ہیں، جھوٹے مقدمات چلتے ہیں، فرضی وعدے چلتے ہیں، بے مغز بیانات چلتے ہیں، سرکاری خزانے سے موج میلے چلتے ہیں، پروٹوکول چلتا ہے، پرائیویسی اور اداروں میں مداخلت چلتی ہے، بچیوں سے زیادتی کے واقعات چلتے ہیں، ونی چلتی ہے، کم عمری، وٹہ سٹہ اور قرآن سے شادیاں چلتی ہیں، غیرت کے نام پر قتل و غارت چلتی ہے، آئینی و غیرآئینی بحران چلتے ہیں، بجلی، گیس، پٹرول، آٹا، چینی کے بحران چلتے ہیں۔۔۔ اور ایسے ہی بے شمار پہیوں پریہ ملک چلتا ہے۔‘