یہ کالم آپ یہاں مصنفہ کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں
کشمیری پھرن اور گرم ٹوپی میں ملبوس انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما راہل گاندھی کی وائرل تصویر دیکھ کر بیشتر کشمیریوں کا ہنسنا تو بنتا ہے۔ یہ ہنسی تقریباً تین سال کی شدید گھٹن کے بعد پہلی بار دیکھی گئی ہے۔
کانگریس کے مقامی کارکن ضمیر بٹ کے مطابق: ’مولوی راہل گاندھی کا کشمیر آنا، یہاں کی پوشاک پہننا اور پھر لمبی کھُر دھُری داڑھی رکھ کر سر پر ٹوپی رکھنا، مگر کیا وہ کشمیریوں کے اس درد اور کراہ کو محسوس کرسکتے ہیں جو بی جے پی سے پہلے کانگریس کی دین ہے۔‘
تین برس قبل اندرونی خودمختاری پر شب خون مارنے کے بعد پہلی بار تقریباً پانچ ہزار کشمیریوں کو سری نگر کی سڑکوں پر دیکھا گیا جب راہل گاندھی ’محبت کی دکان کھولنے‘ سری نگر پہنچے تھے۔
بی جے پی جانتی ہے کہ جہاں بجلی کے بلب سے لے کر مہنگائی تک کا ہر مطالبہ ’ہم کیا چاہتے آزادی‘ پر منتج ہوتا ہے، وہاں لوگوں کو سڑکوں پر جمع ہوتے دیکھنا خطرے سے خالی نہیں۔
گو کہ پہلے سکیورٹی کے خدشات کو ظاہر کیا گیا لیکن پھر احساس ہوگیا کہ حکومت کے ’کشمیر نارمل ہوگیا ہے‘ بیانیے پر پانی پھر جائے گا۔ اس کے پیش نظر مرکزی دھاری یا مین سٹریم جماعتوں کے کارکن اور سکیورٹی کے اہلکاروں کو مقامی ملبوسات پہنا کر راہل کی پیدل یاترا میں ساتھ چلنے کی اجازت دے دی گئی۔
راہل گاندھی نے انڈیا کو جوڑنے کی یاترا میں کشمیر کو بھی شامل کیا تھا جو انہوں نے کنیاکماری سے چار ماہ پہلے شروع کی تھی۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ بی جے پی انڈیا کو توڑنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔
کشمیریوں کو امید تھی کہ وہ اپنے خاندان کی اس تاریخی غلطی پر معافی مانگیں گے، جسے مورخین نے ان کے خاندان کی وراثت میں شامل کیا ہے۔ راہل کے خاندانی پیش رو اور آزاد انڈیا کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نے اقوام عالم کے بڑے فورم میں کشمیریوں کو اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا عہدو پیمان کیا تھا جس کو وہ نہ صرف بھول گئے بلکہ کشمیر کی بربادی کی داستان بھی ان کے کشمیر مخالف تجربوں سے شروع ہوگئی تھی۔
انڈیا نواز کشمیری سیاسی جماعتوں کے سربراہ اور ان کے کارکن راہل کے ساتھ بھارت کو جوڑنے کے اس سفر میں ساتھ ساتھ چلے لیکن ان سب کے افسردہ چہروں پر بڑے حروف میں لکھا تھا کہ کشمیر کو توڑنے کے وقت کشمیر جوڑو کی یاترا کی جرت ہمیں نہیں ہوئی مگر انڈیا جوڑنے میں ہم فرماں بردار غلاموں کی طرح آپ کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں۔
ظاہر ہے کہ انڈیا نواز مقامی رہنماؤں کے لیے اس سے بڑا موقع ہی نہیں تھا کہ وہ باہر آنے کی جرات کر رہے ہیں اور اپنے وجود کو پھر سے منوانے کا رسک لے رہے ہیں، ورنہ وہ اپنے ووٹروں کی نظروں میں بھی وہ نہیں رہے ہیں، جس کا وہ ہمیشہ دم بھرا کرتے تھے۔
بیشتر لوگوں کی یاترا کے ساتھ چلنے کی سب سے بڑی وجہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف اپنے غصہ کو ظاہر کرنا تھا، جس کی پالیسیوں سے پوری وادی ایک جیل کی مانند لگ رہی ہے۔
عوام کے بڑے طبقے کو اگر بی جے پی کی پالیسیوں پر شدید غصہ ہے تو کانگریس سے بھی کوئی پیار نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو سیاسی سازشوں اور انتخابی دھاندلیوں کی کانگریس کی لمبی روایات کے باوجود محض چار یا پانچ نشستوں پر ہی محدود نہیں رہتی اور وہ بھی ان نشستوں پر جو پسماندہ طبقے یا جموں سے تعلق رکھتی ہیں۔
راہل گاندھی کا استقبال کرتے وقت کشمیری بھولے نہیں تھے کہ الحاق ہندوستان کے معاہدے کے ساتھ اندرونی خودمختاری کی دستاویز پر پہلی ضرب پنڈت جواہر لال نہرو نے لگائی تھی۔
پہلے سیاسی جوڑ توڑ سے برصغیر کے مسلمانوں کو توڑا پھر کشمیر میں سن 1953 میں شیخ عبداللہ کی گرفتاری کے ساتھ سیاسی ٹھیکیداروں کے جتھے کو تیار کر کے خودمختاری کو ختم کرنے کا ٹاسک پنڈت جی نے ہی دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
راہل گاندھی نے برابر لال چوک کے اس مقام پر ترنگا لہرایا جہاں سن 50 کے اوائل میں نہرو نے عوام کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کے دوران عہد کیا تھا کہ وہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا ساتھ دیں گے۔
چند دہائیاں ہی تو گزر چکی ہیں۔ وہ لوگ زندہ ہیں جنہوں نے نہرو کی وہ تقریر بھی سنی تھی اور آج راہل کی جانب سے ترنگا لہرانے کا ایک اور منظر دیکھ رہے تھے۔
توقع تھی کہ وہ جتنی دلیری سے نریندر مودی کی ہندوتوا پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں اسی دلیری سے کشمیر میں کہہ دیں گے کہ دفعہ 370 الحاق ہند اور جموں وکشمیر کے مابین ایک پل تھا جسے اڑایا گیا ہے اور یہ پل دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آئین کی اس شق کو فوراً بحال کیا جائے۔
انہوں نے شق کا ذکر کیا اور نہ اس کو بحال کرنے کا وعدہ کیا۔ آرٹیکل 370 پر صحافیوں کے بار بار پوچھے جانے والے سوالوں کا جواب دینا بھی گوارا نہیں کیا۔ کیا وہ پانچ اگست 2019 کے فیصلے کی تصدیق کرنے آئے تھے؟
بقول ایک صحافی کشمیری قوم بے وقوف اور جذباتی قوم ہے جو ایک تو مقامی جماعتوں کے جھانسے میں فوراً آتی ہے دوسرا انڈین لیڈرشپ سے اب بھی توقع رکھتی ہے کہ وہ کشمیریوں کو ان کا حق دلانے کی بات کرے گی۔ سات سو سال سے یہی سیاست چل رہی ہے کبھی درانیوں کو لاتے ہیں، کبھی سکھوں کی حکمرانی چاہتے ہیں، کبھی سامراجی طاقت کے ہاتھوں 75 ہزار میں بک جاتے ہیں، کبھی مہاراجوں کی جبری مشقت کی سزا کاٹتے ہیں، اب حصے بخرے کرکے کاغذی جمہوریت کا ڈراما رچانے میں لگے ہیں، راہل گاندھی اس کاغذی جمہوریت کا ایک تسلسل ہے۔‘
راہل گاندھی کے بھارت جوڑو بیانیہ کا قومی سیاست پر کتنا اثر ہوا ہوگا وہ تو ریاستی اسمبلیوں اور اگلے سال پارلیمانی انتخابات میں ضرور نظر آئے گا مگر جموں و کشمیر میں مقامی جماعتوں کے ساتھ ساتھ کانگریس کی جگہ بی جے پی نے پہلے ہی سنبھال کے رکھی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔