انڈیا کی مرکزی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ مشرقی پنجاب کی سرحد سے انڈیا کے زیر انتظام ریاست جموں کشمیر کے جموں خطے میں داخل ہو گئی۔
سات ستمبر 2022 کو جنوبی ریاست تمل ناڈو کے شہر کنیا کماری سے شروع ہونے والا یہ پیدل سفر ریاست در ریاست چلتے ہوئے جموں کشمیر میں داخل ہوا جو اس سفر کی آخری منزل بھی ہے۔
اس موقعے پر جموں کشمیر پردیس کانگریس کے صدر غلام احمد میر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا بی جے پی نے پچھلے نو سالوں سے جو رویہ اختیار کیا ہے بالخصوص جموں کشمیر کے ساتھ وہ ظالمانہ ہے۔
’جموں کشمیر کی عوام شاید راہل گاندھی کے انتظار میں تھی کیوں کہ یہاں کی آواز اب کوئی مقامی رہنما کوئی صحافی نہیں اٹھا پاتا۔‘
کانگریس کا ماننا ہے کہ دائیں بازو کی سخت ہندو قوم پرست قیادت نے انڈیا میں مذہبی منافرت کو عام کیا اور ’بھارت جوڑو یاترا‘ کا مقصد انڈیا کو پھر سے متحد کرنا ہے۔
راہل گاندھی نے اس کاروان سے کئی بار خطاب کرتے ہوئے یہ جملہ دہرایا ’میں نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے آیا ہوں۔‘
جموں کشمیر داخل ہوتے ہی یہاں کے کئی بڑے انڈیا نواز رہنماؤں نے ان کا استقبال کیا جس میں جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی، شیو سینا کے صدر سنجے راوٹ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
راہل گاندھی جب جموں میں داخل ہوئے تو اس دوران لوگ چوراہوں، گھروں کی چھتوں، اور راستوں کے کناروں پر ان کا انتظار کرتے نظر آئے۔
کاروان میں موجود حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے عثمان نے کہا راہل گاندھی ملک کے واحد رہنما ہیں جو پورے ملک کے لیے بات کرتے ہیں۔‘
’بی جے پی مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور ان کے معاملات میں دخل دیتی ہے جو ہمیں اچھا نہیں لگتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جموں کشمیر پردیس کانگریس کے صدر جی اے میر کا ماننا ہے کہ راہل گاندھی ہی جموں کشمیر کی عوام کے رخموں کا مرہم بن سکتے ہیں۔
’اس مشکل ساعت میں راہل گاندھی جی نے بھارت کی عوام کو بھروسہ دیا کہ ان کے سخت حالات کا علاج ممکن ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ان کی توقع سے زیادہ لوگوں کی شرکت ’بھارت جوڑو یاترا‘ کی کامیابی کا ثبوت ہے۔
جموں کشمیر بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر روندر رائنا نے مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کانگریس پارٹی کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے علیحدگی پسند لوگوں کی ہمدرد تنطیم قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ لال چوک میں انڈیا کا قومی پرچم لہرانا صرف مودی حکومت میں ممکن ہوا۔
ہندو قوم پرست حکمران جماعت نے پانچ اگست، 2019 کو جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو معطل کیا تھا جس کے بعد ڈومسائل سرٹیفکیٹ اور حد بندی کا عمل شروع ہوا، تاہم مخالف جماعتیں اس عمل کو انتخابی مفاد پرستی قرار دیتی ہیں۔
جموں کشمیر میں مقیم غیر ریاستی باشندوں کو ووٹ کا حق دینے کے بارے میں بات کرتے ہوئے جی اے میر نے کہا اگر کوئی ملک گیر پالیسی ہو تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں پر یہ سب تجربے کشمیر کے لیے ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بی جے پی کی بوکھلاہٹ ہے۔
(ایڈیٹنگ: بلال مظہر)