پنجاب کے تین جنوبی اضلاع میں حالیہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگانے سے متعلق مختلف سروے پر قدرتی آفت سے متاثر ہونے والوں کی امداد سے زیادہ خرچ کر دیا گیا۔
پنجاب کے جن تین اضلاع میں متاثرین سیلاب کی امداد سے زیادہ سروے پر خرچ کیا گیا ان میں ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور میانوالی شامل ہیں۔
پنجاب میں سیلاب سے متاثرہ دو اضلاع میں جوائنٹ سروے پر 41 کروڑ روپے کے اخراجات کر دیے گئے، اور پنجاب حکومت سے فنڈ کے اجرا کی درخواست کی گئی ہے۔
اس سروے میں جنوبی پنجاب میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں نقصانات کا جائزہ لیا گیا، جس کے لیے راجن پور اور ڈی جی خان کی انتظامیہ نے صرف سروے کی مد میں 41 کروڑ روپے کے اخراجات کا دعویٰ کیا ہے۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق راجن پور انتظامیہ نے سیلاب زدہ علاقوں میں 34 کروڑ کے اخراجات کا تخمینہ دیا۔ اور ڈی جی خان نے جوائنٹ سروے کے نام پر 7 کروڑ روپے خرچ کیے۔
پاکستان ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) حکام کے مطابق راجن پور میں جوائنٹ سروے کے حوالے سے تخمینے پر جواب طلب کیا گیا ہے۔
’اخراجات کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی، تحقیقات کے بعد ہی فنڈز جاری ہوں گے۔‘
سروے پر امداد سے زیادہ خرچ
سرکاری دستاویزات کے مطابق تینوں اضلاع ڈی جی خان، راجن پور اور میانوالی انتظامیہ کی جانب سے پنجاب حکومت سے مانگے گئے۔ فنڈز کے مطابق سیلاب کے دوران امدادی سرگرمیوں پر مجموعی طور پر 39 کروڑ 50 لاکھ روپے خرچ ہوئے، جبکہ انہی علاقوں میں نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لیے سروے پر 41 کروڑ روپے لگانے کا دعوی کیا گیا ہے۔
اس طرح ریسکیو اور امدادی کاموں کے مقابلہ میں نقصانات کا اندازہ لگانے پر ایک کروڑ 50 لاکھ روپے زیادہ خرچ کیے گئے۔
پنجاب میں ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے ترجمان تصور چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ تینوں اضلاع امدادی کاروائیوں اور سروے پر ہونے والے اخراجات کی تفصیلات پی ڈی ایم اے کو موصول ہو گئی ہیں۔
'تاہم انہیں ادائیگی نہیں کی جا رہی، کیونکہ اخراجات میں غیر یقینی فرق پر متعلقہ کمشنر اور ڈپٹی کمشنرز کو چھان بین کا کہا گیا ہے کہ کس طرح امدادی کاموں سے زیادہ رقوم سروے پر خرچ ہو گئیں۔'
انہوں نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کا کام بھی جاری ہے اور متاثرین کی 94 فیصد تعداد میں امداد تقسیم کی گئی ہے۔
اخراجات کی تفصیلات
جنوبی پنجاب میں موسم گرما میں آنے والے سیلاب سے ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور میانوالی کے اضلاع متاثر ہوئے، جن میں متاثرین کے لیے ریسکیو آپریشن کیے گئے، جبکہ بحالی کی کاروائیاں تاحال جاری ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کو موصول دستاویزات کے مطابق ضلع ڈیرہ غازی خان کی انتظامیہ نے امدادی کاروائیوں پر 16کروڑ روپے خرچ کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جبکہ 7 کروڑ 50 لاکھ روپے سیلاب سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگانے کے لیے سروے کروانے پر لگائے گئے۔
راجن پور انتظامیہ کی جانب سے بھجوائی گئی اخراجات کی تفصیلات کے مطابق ضلعے میں ریسکیو آپریشنز پر 17 کروڑ روپے خرچ ہوئے، جبکہ 34 کروڑ روپے سروے کروانے پر اٹھ گئے۔
ضلع میانوالی کی انتظامیہ نے دستاویزات میں ریسکیو آپریشنز کی مد میں 65 کروڑ روپے کا مطالبہ کیا ہے۔
تینوں اضلاع نے امدادی کاروائیوں کی مد میں مجموعی طور پر 39 کروڑ 50 لاکھ روپے، جبکہ نقصان کا اندازہ لگانے کے لیے سروے پر مجموعی طور پر 41 کروڑ 5 لاکھ 30 ہزار روپے خرچ کیے۔
دستاویزات کے مطابق امدادی سرگرمیوں اور سروے پر مجموعی طور پر ڈیرہ غازی خان میں 23 کروڑ 5 لاکھ 30 ہزار روپے اور راجن پور میں 51 کروڑ روپے خرچ کر دیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ضلع میانوالی کی انتظامیہ نے پنجاب حکومت کو بھیجے گئے دستاویزات میں امدادی کاروائیوں اور سروے پر اٹھنے والے اخراجات (65 کروڑ روپے) کا الگ الگ کے بجائے ایک ہی مد میں مطالبہ کیا ہے۔
اس طرح تینوں اضلاع کی جانب سے امدادی کاروائیوں اور سروے کی مد میں مجموعی طور پر 80 کروڑ 55 لاکھ 30 ہزار روپے خرچ کیے گئے، جن میں امدادی کارروائیوں پر 39 کروڑ 50 لاکھ روپے جاری کر دیے گئے ہیں، جبکہ 41کروڑ 5 لاکھ 30 ہزار کا اجراء روک دیا گیا ہے۔
تصور چوہدری کا کہنا تھا کہ کمشنر ڈیرہ غازی خان، ڈی سی او راجن پور اور ڈی سی او میانوالی کو خطوط لکھ دیے گئے ہیں کہ وہ ریسکیو اور سروے پر کیے گئے اخراجات کی چھان بین کر کے رپورٹ بھجوائیں۔ 'اس کے بعد جو رقم خرچ ہوئی ہو گی وہ جاری کی جائے گی۔'
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امدادی کاروائیوں کے دوران ہونے والے اضافی اخراجات کی وجہ کہ ہنگامی طور پر لوگوں کو بچانے کی خاطر کشتیوں، گاڑیوں، رہائش اور خوراک کا بندوبست کرنا ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیلاب کے بعد بحالی کا کام شروع کرنے اور متاثرین کے نقصانات کا ازالہ کرنے کے لیے اندازہ لگانا بھی لازمی ہے، جس کے لیے عارضی ملازمتیں دی جاتی ہیں اور متاثرہ علاقوں میں گھروں، مویشیوں، فصلوں، فیکٹریوں وغیرہ کا ڈیٹا جمع کیا جاتا ہے۔
'خرچ تو ہوتا ہے مگر اتنا زیادہ کیوں ہوا اس بارے مکمل چھان بین کی جا رہی ہے تاکہ حقائق سامنے آسکیں۔'
موسم گرما کے سیلاب میں پنجاب کی لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈیویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ کے وزیر میاں محمود الرشید نے بتایا تھا کہ جنوبی پنجاب کے مختلف اضلاع میں تقریباً 9 لاکھ ایکڑ رقبہ متاثر ہوا۔