انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام کی حکومت نے کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے لیے شروع کیے گئے کریک ڈاؤن میں کم عمر لڑکیوں سے شادی کرنے یا ایسی شادیوں کے انتظام کے الزام میں 1800 سے زیادہ مردوں کو گرفتار کیا ہے۔
انڈیا میں شادی کی قانونی عمر 18 سال ہے لیکن اکثر اس قانون کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
آنے والے دنوں میں مزید گرفتاریوں کا امکان ہے کیوں کہ اب ایسے لوگوں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا جنہوں نے اپنی مساجد اور مندروں میں اس طرح کی شادیوں کو رجسٹر کرنے میں مدد کی۔
آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمانتا بسوا سرما نے کہا کہ پولیس کو ان لوگوں کو بھی گرفتار کرنے کا اختیار دیا جائے گا جو پچھلے سات سالوں میں کم عمری کی شادیوں میں ملوث رہے۔
وزیر اعلیٰ نے ایک ٹویٹ میں کہا: ’میں نے آسام پولیس سے کہا ہے کہ وہ خواتین کے خلاف اس ناقابل معافی اور گھناؤنے جرم کے خلاف زیرو ٹالرینس کے جذبے کے ساتھ کام کریں۔‘
ریاستی حکومت نے پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ انڈیا کے وفاقی قوانین کے تحت یہ گرفتاریاں کرے گی۔
ان قوانین میں ’پروٹیکشن آف چلڈرن فرام سیچوئل آفنسز ایکٹ‘ بھی شامل ہے جس کا اطلاق 14 سال سے کم عمر کی لڑکیوں سے شادی کرنے والے مردوں پر کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح 14 سے 18 سال کی عمر کی لڑکیوں سے شادی کرنے والوں کو ’چائلڈ میرج ایکٹ‘ کے تحت گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
ریاستی حکام نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ ایسی شادیوں کو غیر قانونی قرار دیا جائے گا اور اگر کسی لڑکے (دولہے) کی عمر بھی 14 سال سے کم عمر پائی گئی تو اسے بھی ریفام سینٹر بھیج دیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کریک ڈاؤن کے بعد پولیس نے دو ہفتوں سے بھی کم عرصے میں بچوں کی شادی کے حوالے چار ہزار سے زیادہ مقدمات درج کیے ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ کم عمری کی شادیاں انڈیا میں ہوتی ہیں جہاں کم عمر دلہنوں کی تعداد تقریباً ساڑھے 22 کروڑ ہے۔
2020 کی ایک رپورٹ میں اقوام متحدہ کے بچوں کے لیے ادارے یونیسیف نے کہا تھا کہ انڈیا میں ہر سال کم از کم 15 لاکھ کم عمر لڑکیوں کی شادیاں کر دی جاتی ہیں۔
وزیر اعلیٰ بسوا سرما نے نامہ نگاروں کو بتایا ’بچوں کی شادیاں کم عمر لڑکیوں کے حمل کی بنیادی وجہ ہے جو ملک میں ماں اور نوزائیدہ بچوں کی اموات کی بلند شرح کی بڑی وجہ بھی ہے۔‘
انڈیا کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کی ایک رپورٹ کے مطابق آسام انڈیا میں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں تیسرے نمبر پر ہے جہاں ہر ایک ہزار بچوں میں سے 32 پیدائش کے بعد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ ’مسلمان، ہندو، عیسائی، قبائلی اور چائے کے باغات سے تعلق رکھنے والے سبھی مذاہب اور برادریوں کے لوگ ہیں جو اس گھناؤنے سماجی جرم میں گرفتار ہوئے ہیں۔‘
© The Independent