طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق ’آج دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں امریکہ اور طالبان کے درمیان 18 سالہ جنگ کا اختتام ہوتا نظر آ رہا ہے۔‘
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے سہیل شاہین نے بتایا کہ مذاکرات آج شروع ہوں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس سے پہلے جمعے کے روز صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’ہم کافی آگے بڑھ چکے ہیں، ہمارے مذاکرات طالبان کے ساتھ جاری ہیں۔‘
اپنے دورہ پاکستان کے بعد طالبان سے مذاکرات کے لیے دوحہ پہنچنے پر ٹوئٹ کرتے ہوئے امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے کہا کہ 'ہم طالبان کے ساتھ غیر ملکی افواج کے انخلا کا نہیں امن کا معاہدہ چاہتے ہیں، ایسا امن معاہدہ جس سے فوج کا انخلا ممکن ہو سکے۔'
انہوں نے کہا کہ 'افغانستان میں امریکا کی موجودگی مشروط ہے اور کوئی بھی انخلا مشروط ہوگا۔'
The Taliban are signaling they would like to conclude an agreement. We are ready for a good agreement. #AfghanPeaceProcess
— U.S. Special Representative Zalmay Khalilzad (@US4AfghanPeace) August 2, 2019
ہفتے کو دوحہ میں امریکہ طالبان مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کے بعد امریکی حکومت کو اس سلسلے میں واضح پیش رفت کی امید ہے۔ یہ مذاکرات 18 سالہ افغان جنگ کے خاتمے کے لیے ہو رہے ہیں۔ 2001 میں افغانستان پر حملہ کرکے طالبان حکومت ختم کرنے والا امریکہ افغانستان سے اپنے ہزاروں فوجی واپس بلانا چاہتا ہے جو اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ عسکریت پسند گروپ القاعدہ سے لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے حملے بند کردیں۔
امریکی حکومت کو امید ہے کہ وہ ستمبرمیں افغانستان میں صدارتی الیکشن اور 2020 میں امریکی صدارتی انتخاب سے قبل اس سال یکم ستمبر تک طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
دوسری جانب افغانستان امن عمل کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی ٹڈامچی یاماموتو نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ ’حالیہ ہفتوں میں جیسے جیسے امن کے لیے مذاکرات تیز ہو رہے ہیں اسی رفتار سے افغان سرزمین پر تنازع بھی شدت اختیار کر رہا ہے۔ میں فریقین سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنے حملوں میں یہ سوچتے ہوئے شدت اختیار نہ کریں کہ جس کے پاس زیادہ عسکری طاقت نظر آئے گی، امن مذاکرات کا پلڑا اسی کی سمت میں جھک جائے گا۔‘
اقوام متحدہ کے مطابق امسال جولائی میں افغان شہریوں کی ہلاکت کی شرح گذشتہ پورے سال کے مقابلے میں سب سے زیادہ رہی۔
اقوام متحدہ امن مشن برائے افغانستان کے مطابق 1500 سے زیادہ افغان شہری اب تک ہونے والی جھڑپوں میں ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔ مئی 2017 کے بعد جولائی 2019 واحد مہینہ ہے جس میں شرح بلند ترین سطح پر دیکھی گئی۔
اسی رپورٹ میں امریکی فوج سمیت افغان حکومت کی اتحادی فورسز پر یہ تنقید بھی شامل ہے کہ مسلسل چھ ماہ سے یہ افواج طالبان یا کسی بھی عسکریت پسند تنظیم سے زیادہ عام شہریوں کی ہلاکت کا سبب بن رہی ہیں۔ افغان فوج، امریکی فوج اور طالبان نے اپنے اپنے بیان میں اس رپورٹ کی مذمت کی ہے اور ایک دوسرے پر مختلف الزامات عائد کیے ہیں۔
جولائی کے اوائل میں امن کوششوں کے حوالے سے طالبان اور افغان نمائندوں کے درمیان دوحہ میں ہونے والی تاریخی ملاقات میں شامل وفود نے مبہم انداز میں عام شہریوں کی ہلاکتوں میں صفر تک کمی لانے کا اعلان کیا تھا لیکن اس کے باوجود گذشتہ ہفتوں میں عام افغانوں کے قتل اور زخمی ہونے کا سلسلہ جاری رہا۔
ٹڈامچی یاماموتو نے اس سے پہلے بھی اپنے ایک بیان واضح کیا تھا کہ ’ہر کسی نے یہ پیغام بہت صاف اور واضح انداز میں سنا جو دوحہ میں افغان وفود کے درمیان مذاکرات کے بعد جاری کیا گیا کہ عام شہریوں کی ہلاکتوں کو صفر پر لانا ہوگا۔ ہم تمام فریقین پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس پر عمل کریں اور افغانوں کو پہنچنے والی تکالیف کو روکنے کے لیے اقدامات کریں۔‘
سینئیر صحافی طاہر خان کے مطابق طالبان اور امریکہ مذاکرات کا پہلا دن مکمل ہو چکا ہے۔
Taliban and American negotiators concluded first day of talks n Qatar on Saturday. A Taliban official said frm Qatar members of the Taliban and US technical committees met to discuss draft of an agreement. Both sides have yet to share details.
— Tahir Khan (@taahir_khan) August 3, 2019
انہوں نےاپنی ٹویٹ میں دعوی کیا کہ ایک طالبان عہدیدار کے مطابق ابھی بات چیت کا مسودہ مرتب کیا جانا باقی ہے۔ دونوں طرف سے مزید تفصیلات جاری کی جائیں گی۔