ایک باپ نے اپنی 15 سالہ بچی کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، جو اس کے جسم کو کنکریٹ سے کچلنے کے بعد نظر آ رہا تھا۔ وہ غمگین باپ منجمد کرنے والی سردی میں ٹوٹی ہوئی اینٹوں کے ڈھیر پر اکیلا بیٹھا تھا جو کبھی اس کا گھر ہوا کرتا تھا، دنیا سے غافل اور غم سے مغلوب۔
اس کی بیٹی مر چکی تھی لیکن ایک تکیے سے باہر جھانکنے والی انگلیوں کو سہلاتے ہوئے اس نے ہاتھ کو چھوڑنے سے انکار کر دیا۔
جب سوموار کو صبح سے پہلے کا پہلا زلزلہ آیا تو لڑکی سو رہی تھی۔ ریسکیو ٹیمیں موجود نہیں تھیں تو اس نے اپنی بیٹی کو اس حالت میں بھی اکیلا نہیں چھوڑا۔ اس حالت میں اس باپ پر کیا بیت رہی ہوگی جس کے آنکھوں کے سامنے اس کی ننھی پری اس دنیا سے کوچ کر گئی اور وہ شخص کچھ بھی نہ کرسکا۔
یہ ایک کہانی عالم اسلام میں ایک نئے ہولناک انسانی المیے کے ناقابل بیان درد کو دنیا کے سامنے بلک بلک کر بیان کر رہی تھی اور اس طرح کی ہزاروں کہانیاں اس ملبے کے ڈھیر تلے دب چکی ہیں۔
اس ہفتے پیر کی صبح شام اور ترکی کے سرحدی علاقوں میں ایک ہولناک زلزلہ آیا۔ زلزلہ اس قدر شدید تھا کہ اس سے صرف چند ہی لمحوں میں شہر کے شہر ملبے کا ڈھیر بن گئے۔
زلزلے کی ہولناکی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس میں اب تک اطلاعات کے مطابق 22 ہزار انسانی جانیں اپنے خالق حقیقی سے جاملی ہیں۔
زلزلے کے یکے بعد دیگرے دو شدید جھٹکوں نے ترکی اور شام میں لاکھوں انسانوں کی زندگیاں بدل کر رکھ دیں۔ ہنستے مسکراتے ہزاروں خاندان لاکھوں ارمان دل میں لیے نیند کی آغوش میں چلے گئے لیکن انہیں کیا معلوم کہ صبح ان کے لیے کیا پیغام لائے گا۔
اس وقت جب میں یہ تحریر لکھ رہی ہوں زلزلے سے جنوبی ترکی اس وقت سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں اب تک کم و بیش 19 ہزار لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔
زلزلے سے ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ موجود ہے، ایک اندازے کے مطابق اس المناک انسانی المیے میں 40 ہزار سے زائد ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔
اس کے علاوہ ابھی تک ہزاروں لوگ اس وقت کئی کئی فٹ کنکریٹ کے ملبے تلے اپنی آخری سانسیں گن رہے ہیں اور امداد کے منتظر ہیں۔
زلزلہ زدہ علاقوں میں گذشتہ کئی دنوں سے ریسکیو اور بحالی کا عمل جاری ہے اور پوری دنیا بشمول پاکستان کے اس مشکل وقت میں ترکی کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں اور لوگوں کو ملبے سے نکالنے سمیت خوراک کی فراہمی کے لیے کوشاں ہیں۔
ترکی اور شام میں آنے والے اس تباہ کن انسانی المیے نے 1935 میں کوئٹہ میں آنے والے ہولناک زلزلے کی تلخ یادیں تازہ کر دیں جہاں اسی طرح کی صورت حال میں 40 ہزار سے زائد انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔
جہاں اس ہولناک زلزلے کی جگہوں سے کئی ناقابل بیان دردناک کہانیاں آرہی ہیں وہیں دوسری طرف شام سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک بڑا معجزہ بھی پوری دنیا کے سامنے ننھی پری ’آیا‘ کی صورت آیا۔
شام میں جب زلزلہ آیا تو اس وقت ہزاروں خاندانوں کی طرح آیا کے اہل خانہ بھی آنے والے کل کے ہولناکی سے بے خبر سکون کی نیند سو رہے تھے، جس وقت زلزلہ آیا تو یہ بچی اپنی حاملہ ماں کے پیٹ میں سکون کی زندگی گزار رہی تھی، زلزلے کی شدت نے اس پورے خاندان کو سنبھلنے کا ایک لمحہ بھی نہ دیا اور پوری عمارت ملبے کا ڈھیر بن کر ان پر قہر کی طرح نازل ہوا۔
جب تک یہ خاندان اس زلزلے سے بچنے کے لیے باہر نکلتا عمارت کا ملبہ ان پر گرگیا اور اس کے نیچے دب کر پورا خاندان جان سے چلا گیا لیکن اس بچی کی مضبوط ماں نے ایک دفعہ پھر ثابت کیا کہ ماں دنیا کی طاقتورترین ہستی ہے اور اس نے موت کو شکست دے کر اپنی بچی کو زندہ اس دنیا میں لایا۔
جب 36 گھنٹے کے بعد لوگ ریسکیو کے لیے اس عمارت کے پاس آئے تو ملبے کے ڈھیر میں ایک معجزہ ان کا منتظر تھا، جہاں یہ نومولود بچی اپنے ماں کے ساتھ اوول نال کے ذریعے جڑی ہوئی تھی۔ تب ان ریسکیو کرنے والوں نے بچی کو ماں سے الگ کیا اور اسے طبی امداد دی۔
اللہ تعالیٰ کے اس عظیم معجزے کا نام ’آیا‘ رکھا گیا جس کے عربی میں معنی بھی معجزہ ہی ہیں۔
یہ ایک بہت بڑا معجزہ ہے جہاں ایک طرف موت نازل ہو رہی تھی وہیں دوسری طرف موت کی کوکھ سے زندگی نے جنم لیا۔
شام جو گذشتہ 12 سال سے دہشت گردی اور خانہ جنگی سے مسلسل لڑ رہا ہے، کافی عرصے سے مغربی پابندیوں کا شکار بھی ہے اور مسلسل حالت جنگ میں رہنے کے باعث بنیادی انفراسٹرکچر بھی پہلے سے نا ہونے کے برابر تھی، ایسے وقت میں اس قدرتی آفت نے شام کے مشکلات میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔
ایسے میں اس تباہ کے زلزلے کے مزید گہرے اثرات مرتب ہونگے۔ جس کا اثر اس کی پہلے سے مسائل میں گھری معیشت پر بھی بہت زیادہ پڑے گا۔
ترکی میں اس وقت امداد تو تھوڑا بہت پہنچ رہی ہے لیکن اس وقت شام میں لوگوں کے مشکلات دگنی ہیں اور اس وقت وہاں بیرونی امداد بھی بالکل پہنچ نہیں رہی یا انتہائی کم پہنچ رہی ہے، اس وقت شامی لوگوں کو بھی دنیا کے فوری امداد کی اشد ضرورت ہے۔
ترکی بھی اس وقت بہت نازک حالات کا شکار ہے اور پوری قوت کے ساتھ زلزلے کی تباہ کاریوں سے نمٹ رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس ہولناک قدرتی آفت کے ترکی کے مستقبل پر بھی انتہائی گہرے نشانات پڑیں گے، جہاں اس کی آٹھ کروڑ سے زائد کی آبادی پہلے سے شدید معاشی مشکلات کا شکار تھی وہاں اس زلزلے کے انتہائی طویل المدتی اثرات پڑیں گے جس کا اس کی معیشت، فوج، اور سیاست پر گہرا اثر ہوگا۔
جہاں ایک طرف ہزاروں لوگ اس وقت تک اس زلزلے میں لقمہ اجل بن چکے وہیں دوسری طرف لاکھوں انسانوں کے سروں سے چھت بھی چھن چکی ہے۔
جہاں سرد موسم، بھوک، افلاس اور مایوسی ان بے گھر لوگوں کی امید کو توڑ رہی ہے وہیں پر ایک عمارت کے ملبے تلے کوئی 80 گھنٹوں بعد ایک دو سالہ بچے کو زندہ ریسکیو کرنے کے عمل نے لاچار لوگوں میں ایک نئی روح ڈال دی۔
برادر اسلامی ملک ترکی اس وقت ایک بہت بڑے انسانی المیے سے گزر رہا ہے اور پورے ملک میں اس وقت ایمرجنسی نافذ ہے۔ ترکی کو اس وقت ہر ممکن مدد کی ضرورت ہے اور ہونی بھی چاہیے کیونکہ ترکی نے اپنے خراب معاشی حالات کے باوجود دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی کوئی انسانی سانحہ ہوا ہے وہاں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور لوگوں کی بلاتفریق مدد کی ہے۔
حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ترک صدر نے 10 صوبوں میں تین ماہ کے لیے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ سال جب پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری تھیں اور پاکستان ایک بڑے انسانی المیے کا شکار تھا، اس وقت ترکی وہ برادر ملک تھا جس نے اپنے مسائل کو بھی چھوڑ کر ہماری امداد کے لیے بڑھ چڑھ کر اقدامات کیے اور اپنے برادار ملک ہونے کا ثبوت دیا۔
اب اس وقت اسے ہماری مدد کی ضرورت ہے۔ ہمارے اپنے حالات اس کی اجازت نہیں دیتے لیکن جب ارادے مضبوط ہوں تو راہیں نکل آتی ہیں۔
ترکی اور شام اس وقت جس المیے سے گزر رہے اس کو لفظوں میں بیان کرنا بہت مشکل ہے اور اس وقت دنیا بھر کو بشمول پاکستان کے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد کے لیے اپنے ہاتھ بلند کرنے ہوں گے تاکہ لوگوں کا انسانیت کے رشتے پر اعتماد برقرار رہے۔
بلاشبہ اس وقت ترکی کے حالات انتہائی سنگین ہیں اور دور دور تک مایوسی اور ناامیدی کی فضا چھائی ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ امید بھی ہے کہ وہ اپنے عظیم الشان ماضی کو دہراتے ہوئے اس المیے سے بھی خندہ پیشانی کے ساتھ نبرد آزما ہوں گے اور ایک دفعہ پھر پوری دنیا میں عالم اسلام کی ترجمانی کریں گے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔