صباحت رضوی لاہور ہائی کورٹ بار میں الیکشن جیت کر اس کی سیکریٹری منتخب ہونے والی پہلی خاتون ہیں۔
پیر کو اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد انہوں نے بتایا کہ یہ عہدہ حاصل کرنا ان کے لیے آسان نہیں تھا۔
’بہت مشکل کام تھا کیونکہ وکالت کے پیشے پر مردوں کا غلبہ ہے اور سیکریٹری کی سیٹ پر خاتون کو بٹھانا ایک ٹیبو تصور کیا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ یہ کرسی یا عہدہ صرف مردوں کے لیے بنا ہے۔
’خیال یہ کیا جاتا تھا کہ چونکہ یہ عہدہ بہت ذمہ داری کا ہے اس لیے یہ خواتین کے لیے نہیں۔
’میں نے ان سب ٹیبوز کو توڑا اور ان سب خیالات کو ختم کیا اس الیکشن میں جیت کر۔‘
اس کامیابی کے لیے انہیں پورے صوبہ پنجاب کی چھوٹی بڑی 94 بار ایسوسی ایشنز کا دورہ کرنا پڑا۔
’مجھے وہاں جانا تھا اور ہر دوست سے فرداً فرداً ووٹ مانگنا تھا۔ بہت سے دوست مجھے ذاتی طور پر نہیں جانتے تھے صرف بطور ایک وکیل جانتے تھے اور لاہور میں تو سب سے زیادہ مشکل تھا کیونکہ یہاں سیاست بہت زیادہ ہے۔
’ایک اور مسئلہ یہ تھا کہ اس بات کی قبولیت بہت کم تھی کہ خواتین اس سیٹ کے لیے انتخاب میں حصہ لیں۔ ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی۔
’میں نے بہت سے محاذوں پر جنگ لڑی۔ میں نے اپنی برادری کو قائل کیا کہ میں بطور وکیل یہ الیکشن لڑ رہی ہوں نہ کہ ایک خاتون کے طور پر۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میرے خیال میں وکیل کی کوئی جنس نہیں ہوتی وہ صرف وکیل ہے۔‘
ایک سال کے لیے سیکریٹری منتخب ہونے والی صباحت نے اپنے مستقبل کے منصوبوں کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا: ’میں بہت بڑے دعوے نہیں کروں گی لیکن میں بار کی خدمت کروں گی۔
’بار نے مجھ پر اعتماد کیا اور مجھے عزت بخشی۔ میں سمجھتی ہوں اس لیے میں ان کی خدمت کے لیے ہر حد تک کوشش کروں گی۔
’سب سے اہم بات یہ کہ ہم قانون کی پاس داری، آئین کی بالا دستی اور شہری حقوق کی بات کریں گے اور ان کی پاسداری کریں۔
’ہم ریاستی تشدد، انسانی و بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر آواز اٹھائیں گے۔
خواتین وکلا کے حوالے سے صباحت کہتی ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ جو سہولیات اور مراعات مرد وکلا کو حاصل ہیں وہی سب کچھ خواتین کو بھی مل پائے۔
صباحت کے سر ایک سہرا یہ بھی ہے کہ انہوں نے ٹرانسجینڈرز رائٹس بل لکھا اور یہ ٹرانسجینڈرز حقوق کی رضاکار بھی ہیں۔