پیر کو لاہور وکلا برادری نے ماتحت عدالتوں میں مکمل جب کہ ہائی کورٹ میں جزوی ہڑتال کی، یہ ہڑتال اتوار کو لاہور کے چوہنگ کے علاقے کے رہائشی ایک وکیل، ان کی اہلیہ اور بچی کے تہرے قتل کے بعد کی گئی۔
لاہور پولیس کے مطابق اس قتل میں ملوث ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے اور یہ قتل ذاتی جائداد کے تناظر میں کیے گئے۔
کیا ایسی صورتحال میں پورے ایک دن کے لیے ماتحت عدالتوں میں کام بند کر دینا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں ایڈووکیٹ ملک فہیم اعوان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ماتحت عدالتوں میں مکمل جب کہ لاہور ہائی کورٹ میں جزوی ہڑتال کی جارہی ہے جس کا مقصد قتل ہونے والے وکیل اور ان کے خاندان سے اظہار یکجہتی کا اظہار ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ماتحت عدالتوں میں پیر کو لگنے والے ارجنٹ کیسسز کی سماعت بھی نہیں کی گئی اور مکمل طور پر کام بند رہا۔
ایدووکیٹ احمر مجید کے مطابق ’اس ہڑتال کی کال بارکونسل نے دی تھی مگر رات گئے ملزمان پکرے گئے۔ ہڑتال کا چونکہ نوٹفیکیشن جاری ہو چکا تھا اس لیےہڑتال جاری رکھی گئی۔ ان کا کہنا تھا ’وکلا کا لائیرز پروٹیکشن ایکٹ کا مطالبہ پرانا ہے۔ دیکھا جائے تو وکلا کے خلاف کوئی مقدمہ ہو تو 7 اے ٹی اے کی دفعہ لگ جاتی ہے لیکن جب وکیل متاثرین میں ہو تو 7 اے ٹی اے کا مقدمہ درج نہیں کیا جاتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یقیناً ایسی ہڑتال کا نقصان اپنے مقدمے کے لیے عدالت آنے والے کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے کیونکہ وہ اس آس سے آتے ہیں کہ شاید اس دن کی سماعت میں ان کے معاملات حل ہو جائیں لیکن بدقسمتی سے بار کونسل کے پاس پریشر ڈالنے کا طریقہ ہڑتال ہی ہوتی ہے۔ ایڈوکیٹ احمر کہتے ہیں کہ اس طرح کی ہڑتال جو پیر کو ہوئی اس پر اس طرح سے عمل نہیں ہوتا۔ جو ارجنٹ نوعیت کے کیسسز ہوتے ہیں وہ لگ جاتے ہیں جیسے کوئی سٹے کا کیس ہو یا کوئی ضمانت وغیرہ ہو تو وہ ہوجاتے ہیں۔ ہاں وہ کیس جن میں شہادتیں ہونی تھیں یا جرح، وہ کیس اس روز نہیں سنے جاتے۔ اصل مسئلہ گورننس کا ہے رول آف لا کے مسائل کی وجہ سے بار کونسلز ہڑتالیں کرتی ہیں لیکن اصولی طور پہ اس قسم کی ہڑتال نہیں ہونی چاہیے اور بار کونسلز کو سائلین کا احترام کرنا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایڈووکیٹ اشتیاق چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’کسی بھی وکیل کی جان چلے جانا یقیناً اس کمیونٹی کے لیے بڑا صدمہ ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر ایک دن کے لیے ہڑتال کی جاتی ہے۔ آپ جس بھی ادارے میں کام کر رہے ہوں اور وہاں آپ کے کسی ساتھی کی موت ہوجائے تو افسوس کا اظہار تو کیا جاتا ہے۔ یہ ہڑتال بھی ہماری جانب سے افسوس کا اظہار ہے۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ اس قتل کے ملزمان گرفتار ہو گئے ہیں اس لیے ہڑتال طویل نہیں ہونی چاہیے بلکہ منگل سے معمول کا کام شروع ہو جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ وکلا برادری نے اس ہڑتال کی کال تب دی تھی جب پولیس ملزمان کو گرفتار نہیں کر پائی تھی لیکن اگر ملزمان پہلے گرفتار ہوجاتے تو شاید اس ہڑتال کا اعلان نہ کیا جاتا۔ اپنے ذاتی خیال کا اظہار کرتے ہوئے ایڈوکیٹ اشتیاق کا کہنا تھا: ’میرے خیال میں تیز تر انصاف انتہائی ضروری ہے اور بلاوجہ کی ہڑتالوں سے گریز بہتر ہے۔‘
ان کے مطابق ’سول کورٹس میں تقریباً ڈیڑھ سو سول ججز ہیں اور ہر جج کے پاس روزانہ تقریباًسو کے قریب کیس لگتے ہیں اس طرح تقریباً پندرہ ہزار کیسسز کی روزانہ سماعت ہوتی ہے۔ اس سے اوپر جو فورم ہیں ان میں چوبیس کے قریب ایڈز ل ججز ہیں ان کے باس بھی روزانہ لگ بھگ پچاس کیسز کی لسٹ ہوتی ہے۔ یہاں بھی روزانہ تین چار سو کیسسز روزانہ لگے ہوتے ہیں۔‘
گزشتہ روز لاہور میں چوہنگ کے علاقے میں ایڈووکیٹ امانت علی، ان کی اہلیہ اور بچی کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس قتل کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب راؤ سردار علی خان نے سی سی پی او لاہور سے واقعہ کی رپورٹ طلب کی اور ڈی آئی جی آپریشنز کو فرانزک شواہد کی مدد سے تفتیش کرنے اور ملزمان کو جلد از جلد گرفتار کرنے کی ہدایت کی جس کے بعد پولیس نے اس قتل میں ملوث تین افراد کو حراست میں لے لیا۔
لاہور پولیس کے ایک ترجمان کے مطابق پولیس نے مقتول کے بھائی امین اور اس کے بیٹے کو حراست میں لے لیا جب کہ ملزم کا کزن بابر عرف بابری بھی پولیس کے حراست میں ہے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق بابر عرف بابری اغوا برائے تاوان میں بھی ملوث رہا ہے۔ جب کہ مقتول ایڈوکیٹ کے بھائی امین ناس سے پہلے اپنے والد کو بھی قتل کر چکے ہیں۔ پولیس کو شک ہے کہ امین نے امانت کو جائیداد کے تنازع پر قتل کیا۔ پولیس کا مزید کہنا ہے کہ اس کیس میں ملزمان سے مزید تفتیش کا عمل ابھی جاری ہے۔