مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر اور سینیئر نائب صدر مریم نواز حکومت کا حصہ نہیں لیکن حکمران جماعت کی ابھرتی ہوئی ایسی لیڈر کے طور پر سامنے آ چکی ہیں جو کہ عمران خان کی سیاست اور بیانیے کو کھل کر چیلنج کر رہی ہیں۔
عملی سیاست میں مریم نواز کا تجربہ اپنی ہی پارٹی کے لگ بھگ ایک درجن ایسے سیاسی رہنماؤں سے کم ہے جو کہ گذشتہ تین دہائیوں سے ان کے والد میاں نواز شریف کا ساتھ نبھا رہے ہیں۔
لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انہوں نے یہ عملی طور پر یہ ثابت کیا ہے کہ نواز شریف کی غیر موجودگی میں حکومت کی کارکردگی پر اٹھنے والے سنجیدہ سوالات اور حکمران جماعت کی ڈھلتی ہوئی مقبولیت کا جواب اس وقت صرف وہی دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
ان کو چیف آرگنائزر اور پارٹی کی سینیئر نائب صدر بنانے کی پارٹی کے اندر مخالفت بھی ہوئی اور اب بھی دبے الفاظ میں ہو رہی ہے لیکن اس کے باوجود گذشتہ دو ماہ سے انہوں نے ایک سال قبل اقتدار میں آ کر اپنا بیانیہ کھونے والی ن لیگ کو ایک بار پھر سیاسی میدان میں ضرور لا کھڑا کیا ہے۔
یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کرنے اور خود کو بطور سیاسی رہنما منوانے کے لیے ابھی ان کے سامنے چیلنجز کا ایسا انبار ہے جسے عبور کر کے ہی وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکیں گی۔
ایک ایسے وقت میں جب موجودہ حکومت کی کارکردگی کا دفاع کرنا ترجمانوں کے بس کی بات نہیں رہی، مریم نواز کی مزاحمتی سیاست اور جارحانہ تقاریر ان کے کارکنان کو گرما کر دوبارہ میدان میں تو لا رہی ہیں لیکن عمران خان کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کی حکومت کا ڈیلیور کرنا بھی ناگزیر ہے۔
گذشتہ ہفتے مریم نواز کے ساتھ تفصیلی انٹریو اور آن/ آف دی ریکارڈ گفتگو میں ان کو قریب سے جاننے کا موقع ملا جو ان سطور کے ذریعے آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔
ن لیگ میں اکثر مختلف پاور سینٹرز ہونے کا ذکر کیا جاتا ہے اور ایسا تاثر حکومت میں آنے کے بعد مضبوط بھی ہوا ہے لیکن یہ تاثر بھی اپنی جگہ درست ہے کہ مریم نواز اپنی تقاریر اور پریس کانفرنسز سے لے کر انٹرویوز تک میں جو پالیسی بیان دیتی ہیں یا بیانیہ بنا رہی ہیں وہ نواز شریف کی ہی سیاسی حکمت عملی ہے۔
ان چند گھنٹوں کی گفتگو میں میرا یہ تاثر مزید مضبوط ہوا کہ نواز شریف کا مریم نواز کو چیف آرگنائزر اور سینیئر نائب صدر بنانے کا فیصلہ ان کو باقاعدہ طور پر اپنا جانشین نامزد کرنا ہی ہے۔ جس سے ن لیگ کے کچھ حلقوں میں بے چینی پیدا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
اس وقت مریم نواز کا فوری چیلنج تو انتخابات سے پہلے پارٹی کو منظم اور کارکنان کو پی ٹی آئی کے مقابلے کے لیے متحرک کرنا ہے لیکن ان کا حقیقی امتحان مہنگائی میں پسے ہوئے عوام کو اپنی جانب متحرک کرنا ہے جس میں بڑی رکاوٹ حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور خراب معیشت ہے۔
ن لیگ کی چیف آرگنائزر کو اس بات کا احساس تو ہے لیکن اس مسئلے کا حل ان کی پارٹی کے صدر اور وزیراعظم شہباز شریف کے پاس ہے جو صرف ڈیلیور کر کے ہی عوام کو ن لیگ کی جانب متوجہ کر سکتے ہیں۔
مہنگائی اور معیشت کے بعد مریم نواز کا دوسرا بڑا چیلنج اس تاثر کو بھی ختم کرنا ہے کہ ان کی حکومت اظہار آزادی رائے پر پابندی اور سیاسی مخالفین پر مقدمات کو بطور آلہ استعمال کر رہی ہے۔
تحریک انصاف کے دور میں ن لیگ کے ساتھ جو کچھ ہوا اتنا تو ابھی تحریک انصاف کے ساتھ نہیں ہوا لیکن اس کا آغاز کم از کم ہو چکا ہے (میں یہ بات اس لیے کر رہا ہوں کہ ن لیگ کے رہنماؤں کو بیس بیس ماہ جیلوں کا سامنا کرنا پڑا اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو چند ہفتوں کا لیکن یہ سلسلہ آگے بڑھنے کی بجائے اب تھم جانا چاہیے)۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنے سیاسی سفر کے انتہائی اہم مرحلے میں مریم نواز کی جارحانہ سیاست سے یہ تاثر بھی ابھر رہا ہے کہ ن لیگ اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی اپوزیشن کی سیاست کر رہی ہے۔ لیکن اس کا جواب ایک بار پھر یہی ہے کہ جارحانہ سیاست کے ساتھ ساتھ ن لیگ کو اپنی پرفارمنس بھی عوام کے سامنے رکھنی پڑے گی۔
پی ٹی آئی یہ بیانیہ کامیابی سے بنا چکی ہے کہ اب ن لیگ کو اقتدار میں آئے ایک سال ہو چکا ہے اور خراب کارکردگی کا جواب تحریک انصاف کے خلاف سیاسی انتقام کی کارروائیوں سے دیا جا رہا ہے۔
اس بیانیے میں کتنا وزن ہے اس بحث کو فی الحال رہنے دیتے ہیں لیکن اس وقت ان سوالات کے جواب تلاش کرنا مریم نواز کی ذمہ داری ہے جن کے ہاتھ میں پارٹی کی باگ ڈور دی جا چکی ہے۔
ان حالات میں میاں نواز شریف کی فوری واپسی کو ٹالنا ن لیگ کو ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی نقصان پہنچا رہا ہے اور مریم نواز کے سامنے دوران انٹرویو یہ سوال رکھا بھی۔
اگرچہ نواز شریف کی واپسی کا عندیہ مریم نواز دے چکی ہیں اور اطلاعات یہ ہیں کہ وہ اسی مہینے آنے کا فیصلہ بھی کر چکے ہیں لیکن جب تک ان کی قانونی مشکلات حل نہیں ہو جاتیں یہ فیصلہ ملتوی ہونے کے امکانات اپنی جگہ موجود رہیں گے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا صروری نہیں۔