سکھر کی ایک عدالت نے پاکستان مسلم لیگ ن کی سینیئر نائب صدر اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو اداروں کی تضحیک کے الزام میں نوٹس جاری کرتے ہوئے دس مارچ کو طلب کر لیا ہے۔
یہ نوٹس ایڈوکیٹ ظہیر محمد کی جانب سے سکھر کی سیشن عدالت میں دائر درخواست پر جاری کیے گئے ہیں۔
ظہیر محمد کی دائر کردہ پٹیشن میں انہوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ ’مریم نواز نے اعلیٰ عدلیہ اور پاکستان فوج کے خلاف جلسے میں نازیبا الفاظ ادا کیے۔‘
جس پر عدالت نے پٹیشن کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے مریم نواز سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر کے 10 مارچ کو طلب کر لیا ہے۔
طلب کیے جانے والے دیگر افراد میں ماڈل ٹاؤن کے ایس ایچ او اور ایف آئی اے کے افسران کو بھی شامل ہیں۔
عدالتی نوٹس کے حوالے سے جاننے کے لیے نامہ نگار قرۃ العین شیرازی نے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اور مسلم لیگ ن کی رہنما مریم اورنگزیب سے رابطہ کیا تاہم تاحال ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نے گذشتہ سال مریم نواز کو انتخابات سے قبل جماعت کی تنظیم سازی کے لیے انہیں چیف آرگنائزر مقرر کیا تھا جس کے بعد وہ (مریم نواز) گذشتہ سال کے آخر میں لندن سے واپس پاکستان آ گئی تھیں۔
پاکستان آنے کے بعد مریم نواز نے ملک میں جلسوں اور پریس کارنفرنسز کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہی جلسوں میں سے انہوں نے ایک جلسہ گذشتہ دنوں سرگودھا میں بھی کیا تھا جہاں انہوں نے بعض ججز اور پاکستان فوج کے چند افسران پر شدید تنقید کی تھی۔
مریم نواز نے جلسہ گاہ میں لگی سکرینوں پر پانچ لوگوں کی تصویریں چلائیں جن میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور لطیف کھوسہ، سپریم کورٹ کے دو حالیہ جج اور آئی ایس ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) فیض حمید کی تصویریں شامل تھیں۔
اس موقع پر مریم نواز نے ایک ایک شخص کا نام لے کر کہا کہ یہ ’سازش میں شامل‘ تھے جبکہ انہوں نے جنرل (ر) فیض حمید پر الزام لگایا تھا کہ وہ ’آرمی چیف بننا‘ چاہتے تھے۔
مریم نواز نے جلسے سے خطاب میں کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اسٹیبلشمنٹ نے عدلیہ میں جج اٹھائے، جو کمپرومائزڈ تھے‘۔ ساتھ ہی انہوں نے ججوں کے نام لے کر انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔