پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان صاحب نے لاہور جلسے میں آخرکار اس حقیقت کو تسلیم کر لیا، جسے ابھی تک وہ جھٹلاتے آ رہے تھے۔
وہ اب اس بات کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں کہ ان پر ’کراس‘ لگایا جا چکا ہے۔ گو کہ اس اقرار میں وہ یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ انہیں کسی صورت اقتدار میں واپس آنے نہیں دے گی، لیکن ساتھ ہی وہ اب بلاواسطہ سہی لیکن یہ بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ اقتدار کھونے کے بعد ان کے بیانیے اور سیاسی فیصلوں نے انہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
نام نہاد امریکی سازش سے امریکی تعاون تک کا سفر ہو، قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا عجیب و غریب فیصلہ ہو یا پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت ختم کر کے اسمبلیاں تحلیل کرنے جیسے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کا فیصلہ ہو، خان صاحب نے کسی کی نہ سنی اور نتیجتاً اپنی پارٹی کو بند گلی میں کمال مہارت سے لا کھڑا کیا۔
انہی تحاریر میں بار بار خان صاحب کے فیصلوں پر اعتراضات کے ساتھ عرض کرتے آئے ہیں کہ عمران خان کے سیاسی فیصلے پی ٹی آئی کے آپشنز محدود کرتے جا رہے ہیں۔ ان کی پارٹی کے کئی سینیئر رہنما آف دی ریکارڈ نشستوں میں کھل کر ہمارے موقف کی تائید کرتے رہے لیکن خان صاحب کے سامنے ان کے موقف کی ایک نہ چلی۔
آج تحریک انصاف اپنے ہاتھوں خود ہی زیر عتاب آ چکی ہے، خان صاحب زمان پارک تک محدود ہو چکے ہیں لیکن انہوں نے پارلیمان کا کوئی ایسا فورم نہیں چھوڑا جہاں آج وہ حکومت کو ناکوں چنے چبوانے کی پوزیشن میں ہوتے۔
آج خان صاحب سمجھتے ہیں کہ ان پر اسٹیبلشمنٹ کراس لگا چکی ہے تو ان سے سوال یہ بنتا ہے کہ جب حاضر سروس افسران سے علی الاعلان کھلی جنگ شروع کر دی جائے، ان پر قتل کی سازش کے الزامات لگا دیے جائیں، لندن اور امریکہ میں ان کی تصاویر پر جوتے برسائے جائیں، سوشل میڈیا پر حافظ اور حاجی کے سابقے اور لاحقے لگا کر ایسے بیہودہ ٹرینڈز شروع کر دیے جائیں تو کیا ریاست ستو پی کر سوتی رہے گی؟
ہماری تاریخ کی اٹل حقیقت یہ ہے کہ ریاست اپنے خلاف بیانیے پر فل سٹاپ لگانے کے لیے حرکت میں آتی ہے اور جب حرکت میں آجائے تو پھر حدود کا تعین نتائج تک کوئی نہیں کر پاتا۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ماضی میں جب بھی ایسی صورت حال بنی تو نقصان ریاست کا ہی ہوا، لیکن عمران خان خود اس لڑائی کو اس نہج تک لے آئے ہیں جہاں انہوں نے کسی کے پاس زیادہ راستے چھوڑے ہی نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ریاست نے ابھی تک عمران خان کو وہ ردعمل نہیں دکھایا جو کہ بھٹو اور نواز شریف کے حصے میں آیا۔ جب آپ رول آف لا کی دھجیاں اڑا دیں، گرفتاری کے وارنٹ کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں، صرف اپنی من پسند عدالتوں میں پیش ہوں وہ بھی ہزاروں لوگوں کے جتھوں کے ساتھ اور ریاست پھر بھی خاموش ہو تو سوال پھر اٹھتے ہیں کہ کچھ ریاستی عناصر قانون کی دھجیاں اڑانے کے باوجود ابھی تک عمران خان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
ابھی تک ایک مضبوط تاثر یہی ابھرتا رہا ہے کہ عمران خان جو چاہیں کر لیں وہ آئین اور قانون سے مبرا ہیں۔ اس تاثر کے باوجود عمران خان کا یہ کہنا کہ ان پر اسٹیبلشمنٹ کراس لگا چکی ہے، کی صرف ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ خان صاحب کی اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی یہ نہیں کہ انہیں اقتدار میں آنے سے کیوں روکا جا رہا ہے بلکہ اصل لڑائی یہ ہے کہ 2018 کی طرح ان کے اقتدار میں آنے کے لیے راہ کیوں نہیں ہموار کی جا رہی۔
انہوں نے اپنا مزاحمتی بیانیہ بھی ایسے ہی ترتیب دیا کہ اسٹیبلشمنٹ پر اتنا دباؤ ڈالا جائے کہ وہ عمران خان کے سامنے گھٹنے ٹیک دے لیکن تحریک انصاف کے باقی رہنماؤں کی طرح انہیں آخرکار اندازہ ہو چکا ہے کہ اب دوسری جانب صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔
خان صاحب کو سیاسی مراقبہ کر کے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اب وہ آگے کیسے بڑھیں جس سے وہ اپنی پارٹی اور ریاست کو مزید نقصان سے بچا سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ ہفتے صحافی شاہد میتلہ کی سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کا احوال کافی زیر بحث رہا۔ گو کہ جنرل (ر) قمر باجوہ کسی قسم کے انٹرویو دینے کی پرزور تردید کر چکے ہیں، لیکن شاہد میتلہ کی ان سے رپورٹ کی گئی گفتگو سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شاید وہ یہ سمجھ رہے ہوں کہ یہ گفتگو رپورٹ نہیں ہو گی لیکن یہ گفتگو ہوئی ضرور ہو گی۔
جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ سے گذشتہ سال جولائی، ستمبر بھی دیگر صحافیوں کے ہمراہ تین ملاقاتیں رہیں، وہ کھلی ڈھلی گفتگو کرنے کے عادی ہیں۔ اس وقت بھی ایسی گفتگو ہوئی جو اگر آج بھی رپورٹ ہو جائے تو کئی حقائق سے پردہ اٹھ سکتا ہے۔
لیکن جو صحافی آف دی ریکارڈ گفتگو کو آف دی ریکارڈ رکھنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو اسے پھر ایسی ملاقاتوں سے پرہیز ہی کرنا چاہیے۔ جنرل (ر) باجوہ اس وقت شاید کچھ لوگوں سے اپنا سکور سیٹل کرنا چاہ رہے ہیں لیکن وہ صحافیوں سے ایسی ملاقاتیں کر کے نہ صرف اپنے لیے بلکہ فوج کی موجودہ قیادت کے لیے بھی مسائل پیدا کر رہے ہیں۔
ان کی گفتگو سے فوج کی سیاست میں مداخلت پر سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں اور ان سوالات کے جواب جنرل (ر) باجوہ نہیں بلکہ فوج کی موجودہ قیادت کو دینے پڑ رہے ہیں۔
انہیں چاہیے کہ دو سال تک انتظار کر کے ایک ایسی کتاب لکھیں جن میں نہ صرف ان سیاسی کرداروں کا تذکرہ ہو جنہیں انہوں نے ماورائے آئین اقتدار دلوایا اور ماورائے آئین ان کے اقتدار کو دوام بھی دیا بلکہ اپنی غلطیوں کا اپنے ہی الفاظ میں برملا اعتراف کریں تا کہ بعد میں تردید کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔