ان دنوں اسرائیل کو اپنی تاریخ کے سب سے بڑے سیاسی اور عدالتی چیلنج کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ نتن یاہو حکومت کی عدلیہ کو اوورآل کرنے کے لیے کنیسٹ میں پیش کردہ عدالتی اصلاحات کا ایک بل بتایا جاتا ہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
اندرون ملک اور اسرائیل سے باہر اس ترمیمی بل کے خلاف ہونے والے بلند آہنگ احتجاج نے بن یامین نتن یاہو کے کانوں کی کھڑکیاں کھول دیں، جس کے بعد انہوں نے سوموار کو قوم سے خطاب میں کہا کہ ’قومی ذمہ داری کے احساس کے تحت، ہمارے لوگوں میں پھوٹ کو روکنے کی خواہش کے تحت، میں نے ترمیمی بل کی دوسری اور تیسری خواندگی کو روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
صہیونی ریاست کے حالیہ بحران پر نظر رکھنے والوں کے لیے یہ بات شاید صدمے سے کم نہ ہو گی کہ برطانیہ کی طرح اسرائیل کا کوئی باقاعدہ تحریری دستور موجود نہیں۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی جمہوریت کے اس ڈرامے کو ’بنیادی قوانین‘ کے ایک مجموعے کی روشنی میں چلایا جا رہا ہے۔
ان ’بنیادی قوانین‘ میں صرف اختیارات کی تقسیم اور شہری حقوق کا بیان ملتا ہے۔ ’بنیادی قوانین‘ میں عدلیہ کے اختیارات کا کوئی وجود نہیں اور نہ ہی انہیں متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اسرائیل نے آج تک اپنا مستقل دستور کیوں نہ بنایا؟ بعض تجزیہ کاروں کی رائے میں اس کی وجہ رنگ برنگا اور مختلف الخیال اسرائیلی معاشرہ ہے، جو تادم تحریر اپنی شناخت اور سرحدوں کے تعین میں ناکام ہے۔
نیز فلسطینیوں کے ساتھ ہر لمحہ بدلتے اسرائیلی رویے اور فیصلہ سازی میں مذہب کے عمل دخل جیسے عوامل نے اسرائیل کو مستقل دستور سے محروم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم سڑکوں پر عدالتی اصلاحات کے خلاف سراپا احتجاج اسرائیلی عوام آج سرزمین بے دستور کے لیے مستقل آئین کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اسرائیلی پارلیمنٹ کی طرف سے کی جانے والی قانون سازی اگر ’بنیادی قوانین‘ سے متصادم ہو تو ایسی صورت میں سپریم کورٹ متنازع قانون کے دستوری یا غیر دستوری ہونے کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے نتن یاہو کی قیادت میں اتحادی حکومت عدلیہ سے متعلق کنیسٹ کے ذریعے چار ترامیم منظور کرانا چاہتی ہے۔
پہلی ترمیم کا مقصد پارلیمان کے ذریعے کی جانے والی قانون سازی پر سپریم کورٹ کے نظر ثانی کے اختیار کا خاتمہ ہے، جس کے بعد پارلیمنٹ کو ججوں کی مرضی کے بغیر کوئی بھی قانون بنانے کا اختیار حاصل ہو جائے گا (مثلاً فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کا قانون، صدارتی اور دیگر اختیارات سے متعلق قانون سازی وغیرہ)۔
دوسری ترمیم کی آڑ میں اتحادی حکومت جوڈیشل کونسل کو بائی پاس کر کے ججوں کی تقرری کا اختیار خود اپنے ہاتھ لینا چاہتی ہے۔ تیسری اہم ترمیم کے ذریعے انتظامی معاملات میں سپریم کورٹ کی ’مداخلت‘ کے آگے بند باندھنا مقصود ہے۔
عدلیہ میں اصلاحات کے نام پر چوتھی ترمیم کے ذریعے وزارتوں میں سیاسی بنیادوں پر قانونی مشیران کی تقرری سے متعلق حکومت سپریم کورٹ کو باز پرس کے حق سے بھی محروم کرنا چاہتی ہے۔
تازہ افتاد نتن یاہو کے لیے یہ آئی ہے کہ اسرائیلی اعلیٰ عدالت نے انہیں توہین عدالت کے سلسلے میں بھی نوٹس دے کر ایک ہفتے میں جواب طلب کر لیا ہے۔ وہ اپریل کے پہلے ہفتے میں جواب دینے کے پابند ہیں۔
اگر اپریل کے دوسرے پندرھواڑے میں ہونے والے اسرائیلی پارلیمان (کنیسٹ) کے اجلاس میں مجوزہ ترمیمی بل من وعن منظور کرا لیا جاتا ہے تو اس سے عدلیہ کا انتظامیہ اور مقننہ کی نگرانی کا اختیار کمپرومائز ہو جائے گا۔
حتمی نتیجے کے طور پر عدلیہ کی اتھارٹی پر انتظامیہ کی گرفت مضبوط ہو جائے گی جو آگے چل کر پارلیمنٹ میں اکثریتی مینڈیٹ کے نشے میں مجلس قانون ساز کو بھی اپنے تابع بنا لے گی۔
یہ دراصل عدلیہ کی اصلاح نہیں بلکہ اس کے خلاف بغاوت کا منصوبہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے طول وعرض میں مجوزہ ترمیمی بل خلاف شور بپا ہے۔
اندرون اور بیرون ملک ہونے والے بلند آہنگ احتجاج کی وجہ سے اسرائیل میں چھ مرتبہ وزیر اعظم بننے والے بن یامین نتن یاہو کے زیر قیادت اتحادی حکومت سخت مشکلات میں گھر چکی ہے۔
صرف چار ماہ کے دوران یاہو کو اپنی حکومت کے دو اہم وزیروں کو فارغ کرنا پڑ گیا ہے۔ اتفاق سے ان دونوں کی برطرفی کی وجہ براہ راست یا بالواسطہ اسرائیلی عدلیہ ہی بنی ہے۔
حکومت کے پہلے مہینے میں فارغ ہونے والے وزیر داخلہ انتہا پسند اتحادی جماعت ’شاس پارٹی‘ کے سربراہ آریہ درعی تھے۔ جن کی فراغت کا حکم اعلیٰ اسرائیلی عدالت نے دیا تھا۔
وہ ٹیکس فراڈ کے مقدمے میں سزا یافتہ تھے مگر بن یامین نتن یاہو نے اس کے باجود کابینہ میں شامل کر کے وزارت داخلہ کا قلم دان تھما دیا تھا۔ یوں عدالتی حکم پر محض اسرائیلی وزیر داخلہ آریہ درعی کی تین ہفتے میں ہی وزارت سے چھٹی ہو گئی۔
نتن یاہو نے بڑے بوجھل دل کے ساتھ اس اہم اتحادی وزیر کو برخاست کیا۔ اس وزیر کی برطرفی کے بعد نتن یاہو کو اپنا بھی مستقبل اسی طرح کے خطرے کی زد میں نظر آنے لگا۔ کیونکہ یاہو کے خلاف تین کرپشن کیسز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
تازہ افتاد نتن یاہو کے لیے یہ آئی ہے کہ اسرائیلی اعلیٰ عدالت نے انہیں توہین عدالت کے سلسلے میں بھی نوٹس دے کر ایک ہفتے میں جواب طلب کر لیا ہے۔ وہ اپریل کے پہلے ہفتے میں جواب دینے کے پابند ہیں۔
اس شور شرابے میں نتن یاہو کی حکومت کو اب چوتھے ماہ کے دوران اپنے وزیر دفاع یاؤو گیلنٹ کو برطرف کرنا پڑ گیا ہے۔ وزیر دفاع کی برطرفی نتن یاہو نے اس لیے کی ہے کہ وزیر دفاع نے حکومت کے اب تک کے سب سے زیادہ متنازع آئینی ترامیم منصوبے کو فی الحال روکنے کا مشورہ دیا تھا اور عدلیہ کو کمزور کر کے حکومتی منشا کے مطابق اس کے پلڑوں کو ’درست‘ کرنے کو اسرائیلی سلامتی کے خلاف قرار دیا تھا۔
کسی کابینہ رکن کا نتن یاہو کے سامنے یہ ہمت کرنا قابل قبول نہ ہو سکتا تھا۔ اس لیے ہفتے کے روز وزیر دفاع نے لب کشائی کر کے وزیر اعظم نتن یاہو سے کہا کہ وہ اپنے ذاتی مفاد پر اسرائیل کے قومی مفاد اور سلامتی کو ترجیح دیں۔
اسرائیلی وزیر دفاع یاؤو گیلنٹ کے مطابق عدلیہ کے خلاف اقدامات پر فوج کے اندر سے بھی سخت رد عمل کا خطرہ ہے۔ وزیر دفاع نے یہ موقف سامنے لاتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ان کا فوج کے رینکس اینڈ فائل میں رابطہ رہتا ہے اور وہ فوج کے افسروں اور جوانوں میں اس بارے رد عمل محسوس کرتے ہیں۔
وزیر دفاع اپنے موقف پر اس قدر یکسو تھے کہ انہوں نے اس موقف کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کا بھی عندیہ دے دیا۔ گویا وزارت اور سیاست کی قربانی کو بھی تیار تھے۔
ہفتے کے روز جب وزیر دفاع نے کھل کر آئینی ترامیم منصوبے کی مخالفت کی۔ اس روز اسرائیل میں مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف ہفتہ وار قومی احتجاج کا بارہواں ہفتہ مکمل ہوا تھا۔ اسرائیل میں جہاں ایک سو افراد سے زائد کی تعداد کو بھی احتجاج کرنے سڑکوں پر آنے کے لیے پولیس سے پیشگی اجازت لینا پڑتی ہے، نتن یاہو کی چھٹی حکومت بننے کے بعد سے مسلسل احتجاج کی زد میں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب کی کابلان سٹریٹ اس احتجاج کا مرکز دکھائی دیتی ہے۔ ہر ہفتے کی رات یہاں اسرائیلی نوجوان، وکلا خواتین اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ جم غفیر کی صورت احتجاج کرنے جمع ہوتے ہیں۔
پچھلے ہفتہ کی رات کابلان سٹریٹ پر اس احتجاج میں شریک اسرائیلیوں کی تعداد دو لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ گویا 12 ہفتوں سے جاری اس احتجاج میں ہر ہفتے کی رات اضافہ ہوتا چلا گیا۔ تل ابیب کی کابلان سٹریٹ عملا عدلیہ کے حق میں اسرائیل کا ’تحریر چوک‘ بن کے ابھر رہی ہے۔
لیکن نتن یاہو کی طرف سے اپنے وزیر دفاع یاؤو گیلنٹ کو برطرف کیے جانے کے بعد یہ احتجاج ہفتے کی رات تک محدود رہنے کے بجائے اور مزید پھیل گیا ہے۔ اتوار کی رات اور پیر کی صبح ہزاروں نوجوان اسرائیلی پارلیمنٹ اور وزیر اعظم نتن یاہو کی رہائش گاہ کے درمیان احتجاج کے لیے جمع ہو گئے۔ اس احتجاج کے دوران سڑک پر آگ لگا کر نعرے لگاتے لوگ بھی نظر آئے۔
ٹریڈ یونیز، فوج اور حتی کہ بیرون ملک سفارت کاروں نے بھی اس میں اپنی آواز شامل کرنے لگے تو نتن یاہو نے طوعاً و کرہاً عدلیہ میں اپنا مجوزہ اورآل پروگرام روکنے کے اعلان میں ہی عافیت جانی۔
وزیر انصاف یاریو لیون جو عدلیہ مخالف حکومتی ایجنڈے اور آئینی ترامیم کے روح و رواں ہیں، بھی احتجاجی مظاہرین کے نعروں کا نشانہ رہے، کئی لوگ ان کے استعفے کا بھی مطالبہ کرتے رہے۔
خدشہ ہے کہ بات وزیر انصاف کے استعفے سے آگے بھی جا سکتی ہے، کیونکہ صرف اسرائیلی فوج کے اندر ہی غم وغصہ کی فضا نہیں خود لیکوڈ پارٹی میں بھی بغاوت کی علامات ابھر رہی ہیں۔ برطرف کیے گئے وزیر دفاع کی حمایت میں لیکوڈ پارٹی کے کئی ارکان پارلیمنٹ بھی سامنے آنے کے لیے پرتول رہے ہیں۔
ادھر وزیر انصاف اور اسرائیلی قومی سلامتی کے بدنام زمانہ وزیر ایتمار بن گویر نے بگڑتی ہوئی صورت حال میں وزیر اعظم کو دھمکی دی ہے کہ دباؤ قبول کیا گیا تو وہ استعفیٰ دے کر حکومت سے الگ ہو جائیں گے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ نتن یاہو عوامی اور فوجی دباؤ برداشت نہیں کر سکیں گے اور بالآخر یہی ہوا۔
اسرائیل میں صدر مملکت کے نمائشی عہدے پر براجمان اسحاق ہرتصوغ، جو اس سے پہلے بھی حکومت کو سمجھا بجھا کر ان ترامیم کی بجائے متبادل آئینی ترامیم کی بات کرتے رہے ہیں، اب انہوں نے صورت حال کی نزاکت کے پیش نظر حکومت سے کہا ہے کہ وہ عدلیہ کے اختیارات کو محدود کرنے، عدلیہ کو اپنے تابع کرنے اور عدلیہ کو کمزور کرنے والی ان ترامیم کو مؤخر کیا جائے۔
اسرائیلی صدر بھی نہیں چاہتے کہ عدالتوں کے ججوں کی تقرری خالصتا ًحکومتی صوابدید کے تابع ہو جائے اور حکومت اپنے ایجنڈے کے لیے عدالتوں کو نشانے پر لیے رکھے۔
اسرائیل کے اندر ہی نہیں بیرون اسرائیل امریکہ اور یورپ میں بھی اسرائیلی حکومت کی عدلیہ کے خلاف مخاصمانہ ترامیم کو ناپسند کیا گیا۔ حتیٰ کہ اسرائیلی کاروباری شخصیات، تجارتی کمپنیوں اور بنکوں کے مالکان نے بھی ان ترامیم کو اسرائیل کے لیے سخت خطرناک قرار دے رکھا ہے۔ اس لیے شروع دن سے عوامی احتجاج کا بھی حصہ ہیں۔
اس تناظر میں امریکہ سے تو یہ پیغام بھی موصول ہو گیا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو عدلیہ مخالف مہم کے دوران امریکہ میں پائے جانے والے رد عمل کے باعث فی الحال امریکی دورے پر نہ آئیں۔ مزید یہ کہ امریکہ نے اسرائیل میں مجوزہ آئینی ترامیم کو اسرائیلی سلامتی کے خلاف قرار دیا ہے۔
جبکہ نتن یاہو اور ان کے اتحادی سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی عدلیہ حکومتی معاملات میں مداخلت کرتی ہے۔ کرپشن کے معاملات کو بنیاد بنا کر حکمران اتحاد کی اہم شخصیات، بشمول وزیر اعظم، کو نااہل قرار دے سکتی ہے، نیز عدلیہ اپوزیشن کی بائیں بازو کی جماعت کی بات زیادہ توجہ سے سنتی ہے، جس سے عدلیہ کے پلڑے ایک طرف جھکے نظر آتے ہیں۔
اسی طرح کا ملتا جلتا ماحول ان دنوں پاکستان کے حکمران اتحاد اور عدلیہ کے حوالے سے بھی نمایاں ہو کر سامنے آنے لگا ہے۔ کیا یہ ماحول پاکستان ایسے ملک کے لیے مفید ہو سکتا ہے جس کے مسائل کی فہرست طویل اور نوعیت سنگین ہے۔ جبکہ حکومت اسرائیلی حکومت کے مقابلے میں بھی کمزور اور لاغر ہے۔
البتہ فرق یہ ہے کہ اسرائیلی وزیر دفاع یاؤو گیلنٹ سابق فوجی جرنیل ہونے کے ناطے فوج کے اندرون تک کے حالات کو سمجھنے پر قادر ہے اس لیے عدلیہ مخالف ترامیم کے مقابل کھڑا ہو گیا ہے۔ لیکن پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف ریاست سے زیادہ پارٹی اور پارٹی قیادت کا دفاع کرنے کے عادی ہیں۔ عقل والوں کے لیے اس میں کھلی نشانیاں ہیں، اگر کوئی صورت حال بدلنا چاہے ورنہ
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔