’ہیر دا ہیرو‘صرف ڈراما نہیں آج کل کے حالات کا ایک رومانوی سیاسی و سماجی منظرنامہ ہے جس کو فلمانے کے لیے اندون لاہور کی ہر اعتبار سے بھرپور ثقافت کا انتخاب کیا گیا ہے۔
اس تہذیب میں اتنی طاقت ہے کہ نیم چڑھے کریلے کو بھی میٹھا بنا دیتی ہے۔ اس میں کڑوی بات کہنا بھی آسان ہے۔ وہ جو کہا جاتا ہے کہ یہاں کا ماحول کھلا ڈھلا ہے یعنی اتنی وسعت ہے کہ اس میں سمانے اور سما کر اگلنے کی طاقت ہے۔
ڈرامے میں سیاست کے وہی حالات دکھائے گئے ہیں جو ملک کی سیاست کے چل رہے ہیں۔ اندر سے سب حکمران دوست ہیں بظاہر ایک مصنوعی جنگ ہے جس میں عوام پس رہے ہیں۔ ناظرین تک مزاح مزاح میں یہ بات پہنچ جاتی ہے کہ ان کا عوامی حق کیا ہے۔ ان کے ووٹ کی اہمیت کیا ہے۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو کیا علامتی کردار بنائے ہیں۔ کیا بیرونی سازش کی بات کی ہے اور کیا ہی خوبصورتی سے بتایا گیا ہے کہ ہم کوئی غلام نہیں ہیں۔
مشہور سیاسی مکالموں کا بہت عمدہ استعمال ہوا ہے۔ مشہور اور بین الاقوامی اقوال، شاعری موسیقی، آرٹ ڈرامے کے مصنف کی وسعت مطالعہ کے غماز ہیں۔
ڈھول کی تھاپ پہ عید تک الیکشن اور ہیر اور ہیرو کا بیاہ بھی ہو ہی جائے گا، مگر دیکھتے رہیے گا کیوں کہ اگر ہیر ہے تو چاچا قیدو نے بھی آنا ہے۔
ایک جٹ صاحب اور ایک بٹ صاحب کا سیاسی گھرانہ ہے اور اندون لاہور ہے۔ کونسلر کی سیٹ ہے اور سیاسی کشمکش ہے۔ ان سب کے درمیان عنایت جٹ کے خاندان میں ’ہیر‘ نامی معروف ٹک ٹاکر ہے اور اس کا مقابلہ کسی ’اینجل‘ نامی ٹک ٹاکر سے ہے۔
اسے اسی سوشل پلیٹ فارم پہ ایک ہیرو مل جاتا ہے رشتہ لاتا ہے مگر ہو نہیں پاتا۔
اس کے ابا کے دور کی فیملی کا ڈاکٹر لڑکا زین کینڈا سے آیا ہے، یہیں اندرون لاہور کی حویلی میں ٹھہرا ہے مگر یہ سمجھ نہیں آئی اتنا تھکا ہوا کینیڈین ڈاکٹر اتنے بھرپور کرداروں میں ڈالنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ڈرامے کے آخر اور عید تک یہ راز بھی فاش ہو ہی جائے گا کہ یہ رمضان سپیشل کیتھارسس کرنے والا ڈراما ہے۔
جٹ صاحب کے خاندان نے پچھلا الیکشن ہارا تھا۔ اب ان کے بیٹے ہیروجٹ نے دل میں ٹھان رکھی ہے جنجال پورے کا اگلا الیکشن اس کے ابا جی ہی جیتیں گے۔
اور ہیرو جٹ جیسے چاروں شانے چت ہیر پہ ہارا ہے وہ یہ سیاسی دشمنی بھی ختم کرنا چاہتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہیرو جٹ اندرون لاہور کی نیم غنڈا گردی کے سٹائل میں بنا ہوا نرم دل ہیرو ہے جو لوگوں کی مدد بھی کرتا ہے اور کونسلری کی سیٹ کے لیے بھی راہ ہموار کر رہا ہے۔
یوں مل ملا کے ہیر اور ہیرو ایک طرف موجودہ سیاسی نظام کی چغلی بھی کھاتے ہیں اور ڈرامے کی کہانی کو رنگین بھی بناتے ہیں۔ شاید ہی کوئی سیاسی مکالمہ و واقعہ مصنف نے چھوڑا ہو جسے استعمال نہیں کیا گیا۔
مصنف نے موجودہ ہونے والے نثر و شاعری کے محسوسات اور پڑھے لکھے احساسات کی بھی ایسی نشان دہی کی ہے کہ رمضان میں دہی کی کمی پوری ہو جاتی ہے۔
جنجال پورہ کی علامت پی ٹی وی پہ گرچہ استعمال ہو چکی ہے مگر مصنف نے اسے ری مکس کیا ہے۔
ہیر کی زندگی میں مسٹر ماڈل ٹاؤن آئے یا ڈاکٹر زین، ہیرو جٹ ہی بنے گا۔ اگلا الیکشن جیت لینے سے ویسے ہی مفاہمتی فضا جٹوں کے حق میں چلی جائے تو بٹوں کو اپنی بیٹی کے لیے ہیرو کا انتخاب کرنا زیادہ مشکل نہیں ہو گا
لیکن تب تک آپ بھی اس میدان سیاسی و محبتی سوشل میڈیائی جنگ سے محظوظ ہوتے رہیے۔
’ہیر دا ہیرو‘ کے مصنف عمار خان ہیں اور صائمہ وسیم ڈائریکٹر ہیں، یہی وجہ ہے کہ ڈرامے میں گھر کے اندر اور باہر کی زندگی متوازن دکھائی دے رہی ہے۔
جیسے ایک مرد و عورت مل کر ایک خاندان بناتے ہیں زندگی کی جزئیات پوری کرتے ہیں یونہی ڈرامے میں مشترک رائٹر یا ڈائریکٹر کے ہونے سے زندگی کی جزئیات مس نہیں ہوتیں۔
ساری کاسٹ سینیئر اداکاروں پر مشتمل ہے۔ چونکہ اندرون شہر ہے تو موسیقی دھمال ہی ہو گی۔ ڈھول کی تھاپ پہ عید تک الیکشن اور ہیر اور ہیرو کا بیاہ بھی ہو ہی جائے گا، مگر دیکھتے رہیے گا کیوں کہ اگر ہیر ہے تو چاچا قیدو نے بھی آنا ہے۔