پاکستانی تاجروں اور معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کی بندش سے دونوں ممالک کا نقصان ہوگا لیکن یہ تجارت کشمیر کی قیمت پر پاکستانی تاجروں اور عوام کو کسی صورت قبول نہیں ہوگی۔ مسئلہ کشمیر اور سرحدی تنازعات کی وجہ سے پاک بھارت تجارت پچھلی دو دہائیوں میں کئی مرتبہ معطل رہ چکی ہے۔ رواں برس پلوامہ حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور بھارت کی طرف سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے بعد سے یہ دو طرفہ تجارت تقریبا بندش کا شکار ہے۔
پاکستان ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی جانب سے انڈپینڈنٹ اردو کو مہیا کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان بھارت کو 383 ملین ڈالر کی اشیا برآمد کرتا ہے جس میں کھجور کی برآمد 92 ملین ڈالر، سیمنٹ کی 63 ملین ڈالر اور چمڑے کی بنی اشیا 13.7 ملین ڈالر ہے، جبکہ دوسری جانب پاکستان بھارت سے 1.9 بلین ڈالر کی اشیاء درآمد کرتا ہے جس میں پاکستان، بھارت سے 344 ملین ڈالر کی کاٹن درآمد کرتا ہے جو ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری میں خام مال کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔
آئی ٹی سی ورلڈ ٹریڈ میپ کے مطابق پاکستان بھارت کو جو اشیا برآمد کرتا ہے ان میں سب سے زیادہ کھجوریں اور سیمنٹ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ چمڑہ، جپسم، کین شوگر، مختلف آئل سیڈز، سکریپ اور سرجیکل آلات شامل ہیں ۔ بھارت سے پاکستان جو کچھ درآمد کرتا ہے ان میں سرفہرست کاٹن ہے اس کے علاوہ کاٹن یارن، سنتھیٹک اور آرگینک کلرنگ میٹریل وغیرہ شامل ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت ہونی چاہیے یا نہیں؟
اس بارے میں لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر اور پولٹری کاروبار سے وابستہ عبدالباسط نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کچھ عرصہ پہلے تک مرغیوں کی فیڈ بنانے کے لیے بھارت سے سویابین بیج درآمد کرتے تھے مگر اب وہ یہ بیج ارجنٹائن سے منگواتے ہیں۔ باسط کے خیال میں بھارت سے تجارت کرنے میں انہیں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اگر ایک پٹاخا ادھر چلتا یا ادھر دونوں صورتوں میں ہمسایہ ممالک کے درمیان تجارت کو روک دیا جاتا تھا۔ جس کی وجہ سے پاکستانی انڈسٹری ایک ناقابل اعتبار ذرریعہ پر انحصار کرنے لگی تھی۔ ’اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے آئل ایکسٹریکشن پلانٹ والوں نے ارجنٹائن اور امریکہ سے سویا بین کے بیج درآمد کر کے یہاں مقامی طور پر اسے کرش کر کے تیل نکالنا شروع کر دیا۔ یہ طریقہ پاکستان کے لیے تب فائدہ مند ہو گا جب پاکستان ملک کے اندر سویا بین کے بیج پیدا کر سکے۔‘
عبدالباسط کے مطابق ’پاک بھارت تجارت میں بھارت زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ دونوں ممالک کوچاہیے کہ وہ اپنے مسائل کو حل کریں تاکہ تجارت ہو سکے۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کی سرحد دنیا کی آدھی آبادی کے ساتھ لگتی ہے اس لیے ہمیں تو اپنی تجارت پر زیادہ توجہ دینی چاہیے تاکہ ہم دنیا کی آدھی آبادی کے ساتھ تجارت کرسکیں۔ اب بھارت یہ چاہتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ جاری مسائل بھی حل نہ ہوں اور تجارت بھی چلتی رہے اور تجارت بھی وہ والی جس کا فائدہ صرف بھارت کو ہو اور پاکستان ہمیشہ نقصان ہی اٹھائے۔ خطے میں تجارت بہت ضروری ہے لیکن کشمیر کی قیمت پر نہیں۔‘ عبدالباسط نے مطالبہ بھی کیا کہ حکومت بھارت کو نمک بھیجنا بند کریں۔ ان کے مطابق ’اگر بھارت کشمیر پر قبضہ کر کے مسئلہ خراب کر سکتا ہے تو پھر ہمیں بھی یہ نمک روک لینا چاہیے۔ بھارت پاکستان سے نمک کا پتھر منگوا کر اسے وہاں پراسیس کر کے دیگر ممالک میں برآمد کر رہا ہے جس پر میڈ ان انڈیا لکھا ہوتا ہے اور اس چیز پر ہمیں بالکل بھارت کے ساتھ کوئی سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں نہ انہیں نمک بھیجنا چاہیے نہ جپسم۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قومی اسمبلی کے ایک حالیہ اجلاس میں وزیر برائے کامرس اینڈ ٹیکسٹائل معین وٹو نے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ایوان کو بتایا تھا کہ پاکستان بھارت سمیت مختلف ممالک کوخام نمک برآمد کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہو سکتا ہے کہ کچھ ممالک پاکستانی نمک کو اپنی مصنوعات ظاہر کر کے برآمد کرتے ہوں لیکن اس حوالے سے کوئی ٹھوس شواہد یا اعدادوشمار موجود نہیں اس لیے اس مسئلہ کو تنازعہ نہیں بنایا جاسکتا۔
عبدالباسط کے خیال میں کشمیر کا مسئلہ حل ہونا پوری دنیا کے لیے بہت ضروری ہے۔ ’پاکستان اور بھارت میں کشیدگی پوری دنیا کی تجارت پر منفی اثر ڈالے گی۔ پاک بھارت تجارت پر کوئی دوسری رائے نہیں ہمیں کشمیر کا مسئلہ حل کرنا چاہیے پوری دنیا کا فائدہ اسی میں ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر پاک بھارت سرحدیں تجارت کے لیے بند ہیں تو دوسرے راستوں سے تجارت قابل عمل نہیں ہوگی ۔ جیسے ایک ٹرک اگر امرتسر سے واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان داخل ہوتا ہے تو سرحد بند ہونے کی صورت میں وہ پہلے پورے بھارت سے ہوتا ہوا ممبئی سی پورٹ پر جائے، پھر وہاں سے بحری جہاز کے ذریعے کراچی اور پھر وہاں سے لاہورکہیں اور۔ یہ طریقہ قابل عمل نہیں رہے گا۔‘
عامر علی خان شیشے کا کاروبار کرتے ہیں۔ اور پاکستانی گلاس درآمد کرتے ہیں۔ عامر کے خیال میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کا کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا خاص طور پر اب جب بھارت کشمیر پر قبضہ کی کوشش کر رہا ہے۔ ہاں تجارت دونوں ممالک کے درمیاں سازگار حالات کی بنیاد پر ہی کی جاسکتی ہے۔ عامر نے بتایا کہ رواں برس ہونے والے پلوامہ حملے کے بعد سے بھارت کے ساتھ کوئی تجارت نہیں ہورہی جس کا ان کے کاروبار پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔ ’ہم بھارت کے علاوہ فلپائن، ترکی، سری لنکا، نائجیریا، متحدہ عرب امارات، قطر اور نائجیریا سمیت 27، 28 ممالک میں شیشہ برآمد کرتے ہیں اور یہ مزید بڑھ رہی ہے۔ عامر کے خیال میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت ہونی چاہیے مگر اس کے لیے دونوں ممالک کے تعلقات کا مستحکم ہونا بے حد ضروری ہے۔‘
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ ’عملی طور پر پاکستان میں بھارتی طیارہ گرنے کے بعد سے دونوں ممالک میں تجارت ختم ہو چکی تھی لیکن دونوں کے درمیان افغانستان اور ایران کے راستے سمگلنگ بڑھ گئی تھی۔ بین الاقوامی سرحد پر بھارت سے کچھ نہیں آرہا تھا جبکہ پاکستان کی طرف سے نمک اور ادویات میں استعمال ہونے والے سالٹ یا دیگر کئی اشیاء بھارت بھیجی جاتی ہیں۔ اس ساری صورتحال کا زیادہ نقصان پاکستان کو ہوگا کیونکہ بھارت سے کم چیزیں پاکستان آتی ہیں جبکہ ہم زیادہ اشیا بھارت بھیجتے ہیں۔ ڈاکٹر قیس کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کو ایک عرصہ سے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ یہ ان دونوں ممالک کو سوچنا چاہیے کہ دونوں کے درمیان امن کیسے قائم ہو سکتا ہے، میرا خیال ہے کہ تجارت اور عوامی رابطوں کے ذریعے ہی دونوں ممالک امن پا سکتے ہیں۔ بھارت دنیا کی ساتویں بڑی معیشیت ہے اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا ایک اہم رکن ہے اس لیے اس کے پاس اپنی تجارت کے لیے پاکستان سے زیادہ مواقع میسر ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی کشیدگی کی وجہ سے سارک غیر فعال ہو گئی جس کی وجہ سے بھی پاکستان کی برآمدات پر اثر پڑا ہے۔‘
بھارت، پاکستان کے ساتھ تجارت کے حوالے سے کیا سوچتا ہے؟
بھارت کے اخبار فنانشل ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی طرف سے تجارت کی معطلی کا بھارت کو کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوگا جبک پاکستان کی بھارت کو کی جانے والی برآمدات پر گہرا اثر پڑے گا۔ بھارتی برآمدات موجودہ معاشی سال میں پہلے ہی 20.5 فیصد کم ہو چکی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پلوامہ حملے کے بعد بھارت نے پاکستان کو دیا گیا’ دی موسٹ فیورٹ نیشن‘ کا درجہ ختم کر دیا تھا جس کے بعد دو طرفہ تجارت میں نمایاں کمی آئی تھی۔ اس کا زیادہ تر نقصان پاکستان کو ہوا کیونکہ بھارت نے دوسری ایشیائی ریاستوں کی منڈیوں تک تیزی سے رسائی حاصل کر لی تھی۔