عید کے موقعے پر اکثر ایسے دوستوں، فیملی اور ہمسایوں سے بھی ملاقات ہو جاتی ہے جن سے سارا سال ملنا ملانا کم ہی رہتا ہے۔
یہ وہ موقع ہوتا ہے جب آپ کو لوگوں کے احساسات اور تکالیف کا اندازہ زیادہ بہتر طور پر ہو جاتا ہے۔
مہنگائی کا رونا تو ہم عوام ایک عرصے سے رو رہے ہیں لیکن آپ یقین کریں اس بار تو ایسے لوگ معاشی حالات کی وجہ سے عید کی خریداری نہ کر سکے جو مالی مدد کر کے بہت سے لوگوں کو اپنی عید کی خوشیوں میں شریک کرتے تھے۔
بچپن سے اپنے بزرگوں سے یہی سنا کہ عید صرف خوشیاں منانے کا نہیں بلکہ خوشیاں بانٹنے کا بھی نام ہے لیکن معاشی حالات اور کمر توڑ مہنگائی نے عید کے اس بنیادی فلسفے پر عمل کرنا اس دفعہ بہت سے لوگوں کے لیے ناممکن بنا دیا۔
چاند رات سے لے کر عید کے تیسرے دن تک یہ شاید میری پہلی عید تھی جب گردونواح میں بہت سے لوگوں بالخصوص بچوں کے چہرے مرجھائے ہوئے دیکھے۔
اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس دفعہ عید کی مبارکبادیں دینے والوں کی اکثریت ساتھ میں بے تحاشہ اور ناقابل برداشت مہنگائی کا ذکر کر کے یہ سوال بھی پوچھتی رہی کہ ملکی حالات کیا اسی طرح ابتر رہیں گے یا بہتری کا کوئی امکان ہے؟
میرے پاس ظاہر ہے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں تھا اس لیے صرف انشاللہ پر ہی اکتفا کرنے میں عافیت جانی۔
ہمارا میٹر سیاست میں اتنا پھنس چکا ہے کہ آج بھی کالم لکھتے ہوئے پہلے ہیڈ لائنز پر نظر دوڑائی کہ کس موضوع پر لکھا جائے لیکن گذشتہ دو تین دنوں سے میں جس درد کو دیکھ اور محسوس کر رہا تھا اسے ہی تحریر کی شکل میں ڈھالنا لازمی سمجھا۔
تاکہ اسی کالم میں ہی جناب وزیر اعظم شہباز شریف اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سے یہ سوال کیا جا سکے کہ عوام پر جو بیت رہی ہے اور چیخ چیخ کر وہ جو سوالات کر رہے ہیں ان کا جواب تو آپ کے پاس نہیں ہے لیکن کیا آپ کو ان کے درد کا احساس تک ہے؟
انتخابات پر مذاکرات بھاڑ میں جائیں کیا آپ دونوں ملک کو ان ابتر معاشی حالات سے نکالنے کے لیے ون پوائنٹ ایجنڈے پر بیٹھنے کے لیے تیار ہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ن لیگ سے جب یہ سوال کریں تو جواب ملے گا کہ شہباز شریف تو شروع دن سے میثاق معیشت کی بات کرتے آئے ہیں اور تحریک انصاف یہ کہے گی کہ جن لوگوں نے ملک کے اربوں ڈالر لوٹ کر باہر منتقل کیے ان کے ساتھ کیسے بیٹھا جا سکتا ہے؟ جواب یقیناً نفی میں ہی ہے۔
گذشتہ چار پانچ سالوں میں تقریبا ہر بڑے قومی مسئلے پر مذاکرات یا مذاکرات کی کوشش کا کم و بییش یہی نتیجہ نکل چکا ہے۔
اگرچہ اس غیر ذمہ دارانہ رویے کا الزام صرف ایک سیاسی جماعت کو نہیں دیا جا سکتا لیکن میری دانست میں آج اگر سیاسی قیادت اہم قومی مسلوں پر بیٹھنے کو نہیں تیار نہیں تو اس میں ایک بڑا کردار سابق وزیراعظم عمران خان کے دیگر سیاسی قیادت کے بارے میں تضحیک آمیز رویے کا بھی ہے۔
بہرحال حل تو نکالنا پڑے گا وہ بھی انہیں سیاسی جماعتوں کو آپس میں بیٹھ کر۔ اب تو ویسے بھی سیاسی لیکس کے بعد آگے پیچھے عدلیہ سے جڑے لوگوں اور کیسز کے لیکس آنے لگے ہیں۔
تازہ ترین مبینہ آڈیو لیک نے ساس کی یاد دلا دی ہے۔ یہی سلسلہ چلتا رہا تو ان لیکس کی زد میں مزید لوگ اور ادارے آئیں گے اور کردار متنازع ہوتے رہیں گے۔
بہتری اسی میں ہے کہ سیاسی جماعتیں آپس میں بیٹھ کر معاملات حل کریں اور جلد از جلد کریں ورنہ پھر امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے یہ بات حرف بہ حرف درست ثابت ہونے کے روشن امکانات ہیں کہ سیاست دان صرف بلدیاتی انتخابات تک ہی محدود کر دیے جائیں گے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔