ترکی میں 14 مئی کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں صدر رجب طیب اردوغان کامیابی حاصل کرنے کے لیے سرگرم ہیں، لیکن حزب اختلاف کے رہنماؤں اور تجزیہ کاروں میں یہ خدشہ بڑھتا جا رہا ہے کہ اردوغان اور ان کے حامی رائے دہندگان کو ڈرانے دھمکانے کے لیے تشدد کا سہارا لیں گے اور اگر نتائج ان کے حق میں نہ آئے تو انتخابات کو چیلنج کریں گے۔
ترک حزبِ اختلاف، ترکی کے بین الاقوامی شراکت داروں اور اتحادیوں اور یہاں تک کہ صدر کے کیمپ میں موجود افراد کو بھی اس امکان کو مدِ نظر رکھنا چاہیے اور پرامن اور منظم انتخابات کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔
اردوغان الیکشن جیتنے میں مہارت رکھنے والے کہنہ مشق سیاست دان ہیں اور وہ اس بار بھی جیتنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ انہوں نے مختلف عوامی منصوبے شروع کر رکھے ہیں، جن کی وہ آئے روز نقاب کشائی کرتے رہتے ہیں۔
انہی منصوبوں میں ترکی کی پہلی الیکٹرک کار کے افتتاح کے ساتھ ساتھ ترکی کے پہلے جوہری ری ایکٹر بھی شامل ہے، جس کی تقریب میں روسی صدر ولادی میر پوتن نے بھی شرکت کی۔
یہی نہیں، اسی دوران اعلان ہوا کہ ترکی کا پہلا خلاباز اس سال خلا میں بھیجا جائے گا۔ نئی فیکٹریاں اور اسلحہ سازی کے نئے منصوبوں کے ساتھ ساتھ عوام کو کئی نئے تحفے دیے گئے ہیں، جن میں کم از کم تنخواہ میں اضافہ، ریٹائرمنٹ کی عمر میں کمی اور قرض معافی وغیرہ شامل ہیں۔
یہ سارے منصوبے میڈیا کی زبردست کوریج کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں، جو سالہا سال سے اردوغان کے کنٹرول میں ہے۔ انہوں نے جارحانہ انداز میں انتخابی مہم جاری رکھی ہے، حالانکہ ان کی عمر 69 سال ہے اور وہ چند دن قبل ایک انٹرویو کے دوران خرابیِ صحت کا شکار ہو گئے اور انہیں کئی دنوں تک تمام عوامی اجتماعات منسوخ کرنے پڑے تھے۔
لیکن اس بات کے بھی اشارے مل رہے ہیں کہ اگر عوام پسند تحفے اور میگا پروجیکٹ حکومت کی معاشی بدانتظامی اور فروری کے تباہ کن زلزلوں سے نمٹنے کے بارے میں مسلسل عوامی عدم اطمینان پر قابو پانے میں ناکام رہے تو اردوغان یا ان کے اتحادی ایک مذموم ثانوی منصوبے یا ’پلان بی‘ پر کام کر رہے ہیں۔
پروجیکٹ آن مڈل ایسٹ ڈیموکریسی کے ترکی کے تجزیہ کار مروے طاہر اوغلو کا کہنا ہے کہ ’میں ان انتخابات میں تشدد کے بارے میں بہت فکرمند ہوں۔ لیکن میں خاص طور پر انتخابات کے دن اس بارے میں فکرمند ہوں، کیونکہ اس سے نہ صرف ووٹنگ کے عمل میں خلل پڑ سکتا ہے بلکہ انتخابی سالمیت کو محفوظ بنانے کی شہری کوششوں پر بھی کافی سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔‘
حکومت اور حزب اختلاف دونوں میں بہت سے لوگ پرسکون رہنے پر زور دے رہے ہیں اور دلیل دے رہے ہیں کہ آخر کار سمجھ داری غالب آئے گی۔ سول سوسائٹی کے اندر، کسی بھی ابہام یا چیلنج کو روکنے کے لیے بیلٹ باکسوں کی قریب سے نگرانی کرنے کے لیے بڑی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انقرہ میں قیادت کے ساتھ رابطے میں رہنے والے ایک تجزیہ کار نے پیش گوئی کی ہے کہ ‘میرے خیال میں چیزیں توقع سے کہیں زیادہ پرسکون ہوں گی۔‘
لیکن تشدد کا خوف بڑھتا جا رہا ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور برازیل کے صدر جیر بولسونارو کے حامیوں میں سے کسی نے بھی تشدد کا سہارا لیے بغیر انتخابات میں شکست قبول نہیں کی۔
اردوغان ان دونوں رہنماؤں کے ساتھ ایک جیسے دائیں بازو کی عوامیت پسند سیاست اور انداز کا اشتراک کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سینٹ لارنس یونیورسٹی میں ترکی کی سیاست اور تاریخ کے ماہر پروفیسر ہاورڈ آئسناسٹیٹ کا کہنا ہے کہ ’مجھے انتخابات کے بعد تشدد کی زیادہ فکر ہے کیونکہ نتائج کو غیر قانونی یا مسابقتی یا موجودہ حکومت کے حامیوں کی جانب سے دیکھا جاتا ہے جو سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی اپوزیشن غیر قانونی ہے۔ ہم نے عسکریت پسندوں کے حامیوں کی جانب سے پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں ان میں سے آخری کے کچھ ثبوت دیکھے ہیں، لیکن یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ وہ کتنے سنگین ہیں۔‘
پہلے ہی ناخوشگوار واقعات پیش آئے ہیں اور دھمکیاں دی جا چکی ہیں، جن میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے انتخابی دفاتر پر فائرنگ اور عوامی تقریبات میں حزب اختلاف کے رہنما کمال کلیچداراوغلو کو دھمکانے والے ہجوم شامل ہیں۔
وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں، ایک اسلامی بنیاد پرست گروپ، جس کی جڑیں ایک پرتشدد کالعدم انتہا پسند تنظیم سے وابستہ ہیں، جس کا اردوغان کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کے ساتھ قریبی تعلق ہے، کے ایک سرکردہ رکن نے دھمکی دی ہے کہ وہ کلیداراوغلو کو صدر بننے کی اجازت دینے کے بجائے ان کا سر قلم کر دیں گے۔
ترکی کی وزارت داخلہ انتخابات کی سکیورٹی کی نگرانی کی ذمہ دار ہے اور ووٹنگ سے پہلے، ووٹنگ کے دوران اور بعد میں امن برقرار رکھنے کے لیے ملک بھر میں ہزاروں فوجی اور دیگر فورسز تعینات کر رہی ہے۔ تاہم جمعرات کے روز اردوغان کے وزیر داخلہ سلیمان سوئیلو نے 14 مئی کو ہونے والے انتخابات کو مغرب کی جانب سے ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش قرار دیا۔
انہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک اسلامی تنظیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 14 مئی مغرب کی جانب سے سیاسی بغاوت کی کوشش ہے۔ یہ بغاوت کی ایک کوشش ہے جس کا آغاز 14 مئی کو ترکی کو پاک کرنے کی تمام تیاریوں کو یکجا کرکے کیا جا سکتا ہے۔
اس بیان نے مبصرین کو مشتعل کر دیا ہے اور خدشہ پیش کیا ہے کہ حکومت کے حامی انتخابات میں حزب اختلاف کی ممکنہ کامیابی سے قبل متحرک ہونے کا اشارہ دے رہے ہیں۔
2016 میں اردوغان کے خلاف بغاوت کی کوشش کے دوران، عام لوگ اہم عمارتوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کرنے والے فوجیوں کے خلاف لڑنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
یونیورسٹی کالج کوپن ہیگن کے پروفیسر ختاو روجن کا کہنا ہے کہ ٹیم اردوغان انتخابی نتائج کو مسترد کرنے کے لیے تیزی سے تند بیان بازی کی داغ بیل ڈال رہی ہے۔‘
کیلکداراوغلو نے اس طرح کی ’گندی گفتگو‘ کو روکنے کا مطالبہ کیا اور ’عقلِ سلیم‘ اور پرسکون رہنے پر زور دیا۔ انہوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ایک پوسٹ میں کہا، ’ہم الیکشن میں جا رہے ہیں، جنگ میں نہیں۔‘ انہوں نے کہا، ’ہم بیمار ہیں اور محلے اور گھروں کے بے دریغ تفرقہ بازی سے تھک چکے ہیں۔ یہ نفرت پہلے آپ کو اور پھر ہم سب کو ہڑپ کر لے گی۔‘
ترکی کے انتخابات اور سیاست طویل عرصے سے تشدد کا شکار رہی ہے۔ جون 2015 کے انتخابات میں اردوغان نے اتنی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا جتنا وہ چاہتے تھے، لہٰذا انہوں نے نومبر میں ایک اور الیکشن کے لیے سیاسی عمل کو تبدیل کیا۔ دریں اثنا، ترکی میں دہشت گردی کے متعدد واقعات رونما ہوئے، اور اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں اردوغان کے امکانات میں بہتری آئی۔
ایک سیاسی تجزیہ کار سلیم کورو کہتے ہیں کہ ’2015 کا سبق یہ تھا کہ سیاسی تشدد اردوغان کو فائدہ پہنچاتا ہے۔‘
اگر اردوغان یا ان کا کوئی ساتھی ’ٹرمپ جیسا کوئی کام کرنے‘ اور حامیوں سے نتائج کو چیلنج کرنے پر زور دینے کے لیے کہتا ہے تو ترکی کے پاس اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت کم ادارہ جاتی محافظ موجود ہیں۔
اب تک، ایسا لگتا ہے کہ تشدد کو حکومت کے انتہائی پرجوش حامیوں کی طرف سے اکسایا گیا تھا، چاہے اس میں حکومت کی خاموشی سے یا رضامندی شامل رہی ہو یا نہ رہی ہو۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ اگر اب کی بار نتائج حزب اختلاف کے حق میں آئے تو تشدد اوپر سے نیچے کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
اردوغن کی جونیئر اتحادی جماعت نیشنل موومنٹ پارٹی اپنے ہی ارکان سمیت سیاسی محرکات پر مبنی تشدد کو مبینہ طور پر اکسانے والی جماعت ہے۔ سادات انٹرنیشنل ڈیفنس کنسلٹنسی نامی ایک نجی سکیورٹی کنٹریکٹر جس کے حکومت سے قریبی تعلقات ہیں، نے بھی تجزیہ کاروں کو پریشان کر دیا ہے۔
آئسنسٹاٹ کہتے ہیں، ’اے کے پی اور ایم ایچ پی دونوں کو سکیورٹی سروسز اور سادات جیسی نیم فوجی تنظیموں کے ساتھ وسیع حمایت حاصل ہے۔ یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ انتخابات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور ان کے بارے میں اردوغان کا ردعمل کیا ہو سکتا ہے۔
کشیدگی اور خطرات میں اضافہ یہ ہے کہ دونوں امیدواروں کے درمیان 28 مئی کو دوسرے دور کا حقیقی امکان ہے۔ دو ہفتوں تک جاری رہنے والے اس عبوری دور کے دوران دونوں اطراف کے جذبات اور رقابت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
کیا ہم تشدد کی توقع رکھتے ہیں؟ روزن کہتے ہیں، ’بالکل۔ ترک انتخابات عام طور پر ان اضلاع میں مقامی سطح پر نیم منظم تشدد کا باعث بنتے ہیں جہاں آبادی کا تناسب ملا جلا ہوتا ہے۔‘
آخر کار، برازیل اور امریکہ نے ایسے حکمرانوں کے چیلنجوں کا مقابلہ کیا جنہوں نے رائے دہندگان کے پیغام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن ترکی کی عدلیہ، سکیورٹی فورسز اور میڈیا مکمل طور پر اردوغان اور ان کے حامیوں کے زیر اثر ہیں۔
اگر اردوغان یا ان کا کوئی ساتھی ’ٹرمپ جیسا کوئی کام کرنے‘ اور حامیوں سے نتائج کو چیلنج کرنے پر زور دینے کے لیے کہتا ہے تو ترکی کے پاس اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت کم ادارہ جاتی محافظ موجود ہیں۔
اس کا نتیجہ تباہ کن ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں ترکی میں بڑے پیمانے پر سماجی ہلچل پیدا ہو سکتی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent