ہانگ کانگ میں ملک بدری کے قانون میں مجوزہ تبدیلیوں کے خلاف عوامی مظاہرے حالیہ ہفتوں میں ایک بڑے بحران میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ تازہ مظاہروں میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔
مغربی ملکوں میں ذرائع ابلاغ نے اسے بنیادی حقوق اور آزادی کی جدوجہد قرار دیا ہے، مگر چین میں ان کی کوریج محدود رہی ہے کیونکہ وہاں ان مظاہروں کو منفی سمجھا جا رہا ہے۔ لیکن محدود رپورٹنگ کا تناظر مغربی ممالک کی صحافت سے بہت مختلف ہے جس میں ہانگ کانگ میں سامراجی مداخلت سے متعلق چین کے گہرے خیالات کا عکس دکھائی دیتا ہے۔
3 جولائی کو برطانیہ میں چین کے سفیر لیو شاؤمنگ نے ہانگ کانگ میں ہونے والے مظاہروں پر شاذونادر ہونے والی ایک پریس کانفرنس کی۔ اس دوران ایک رپورٹر کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ’برطانیہ میں بعض لوگوں کے لیے ہانگ کانگ اب بھی ایک نوآبادی ہے جس کا انتظام برطانوی حکومت کے پاس ہے۔۔۔ کچھ سیاستدان نوآبادی والے خیالات کی دنیا میں رہتے ہیں۔‘
چینی سفیر کے یہ الفاظ چینی میڈیا میں بڑی شدت سے گونجے جو مظاہروں پر برطانیہ کے ردعمل کو ہانگ کانگ کی نوآبادیاتی حیثیت کے خاتمے کے بعد بھی اس کے معاملات میں مداخلت سمجھتا ہے۔
یکم جولائی کو مظاہرین نے ہانگ کانگ کی قانون ساز کونسل پر دھاوا بول دیا تھا۔ ہانگ کانگ کا انتظام برطانیہ سے چین کو منتقلی کی سالگرہ کے موقع پر بولا جانے والا یہ دھاوا بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ اُس روز ہونے والے پُرتشدد واقعات اور ان پر برطانوی ردعمل چین کے لیے ناقابل برداشت تھے کیونکہ چین اس حوالے سے اُس تاریخ کو بھلانے کی کوشش کر رہا ہے جسے ’بے عزتی کے سوسال‘ سمجھا جاتا ہے، جن کا آغاز 1839 میں افیم کی جنگ سے ہوا، جو افیم کی تجارت پر لڑی گئی تھی۔
چینی ذرائع ابلاغ ہانگ کانگ کے مظاہروں کو زیادہ تر نوآبادی کی تاریخی عینک سے دیکھتے ہیں۔ بہت سے چینی شہریوں کے لیے ہانگ کانگ غیر جنگی معاہدے سے جڑا ہوا ہے۔ یہ معاہدہ عدم مساوات کی بنیاد پر ہونے والے معاہدوں کے اُس سلسلے کی ایک کڑی ہے جو مغربی طاقتوں نے چین پر مسلط کیے تھے۔ اس معاہدے کے تحت 1842 میں ہانگ کانگ کو برطانیہ کی نوآبادی بنا دیا گیا تھا، جس کی یاد اب بھی، رائے متاثر کرنے والی تاریخی اور سکولوں کی نصابی کتابوں کی بدولت چینی عوام کی قومی نفسیات میں نقش ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہانگ کانگ کے مظاہروں پر چینی میڈیا کی محدود رپورٹنگ میں چینی سفیر کے برطانوی حکومت کو دیے گئے جواب کو نمایاں جگہ دی گئی۔ اس حوالے سے اشاعت کے اعتبار سے چین کے سب بڑے اخبار ’کینکاؤ شیاؤشی‘ میں چھپنے والی خبر کی سرخی تھی: ’نوآبادی کے خواب دیکھتے برطانوی سیاستدان۔‘ اس حوالے نے حالیہ مظاہروں کو تاریخ میں ہونے والی ناانصافی کی عینک سے دکھایا ہے۔
ہانگ کانگ کی سپردگی: تب اور اب
اس طرح کی کوریج میں چینی ذرائع ابلاغ کی زبان میں 1997 میں ہانگ کانگ کے چین کو سپرد کیے جانے کے موقع پر موجود جذبات کی گونج ہے۔ اس پر میں خود بھی تحقیق کر چکا ہوں۔ تب چین کے اخبار ’پیپلز ڈیلی‘ کی شہ شرخی میں کہا گیا تھا کہ ہانگ کانگ کی تحویل چینی قوم کے لیے ’بہت بڑا واقعہ تھا جو تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لیے رقم ہو جائے گا۔ جس میں آفاقی امن اور انصاف کی فتح ہوئی۔‘
اگر کوئی بات 1997 سے اب مختلف ہے تو یہ وہ لہجہ ہے جو 2019 میں زیادہ سخت ہو گیا ہے۔ چین کے مقبول اخبار ’ہوان کی شیبا‘ (گلوبل ٹائمز) نے اداریئے میں لکھا ہے کہ برطانوی وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ نے ’چین کو ایک کھوکھلی دھمکی دی ہے۔‘ اخبار نے طنز کیا کہ ’کوئی یقین نہیں کرے گا کہ برطانیہ اپنا اکلوتا طیارہ بردار جہاز چین کے ساحل پر بھیجے گا۔ یہ 19 ویں صدی نہیں ہے جب افیم کی جنگ پھوٹ پڑی تھی۔‘
میڈیا کی حالیہ رپورٹنگ 22 سال پہلے کی رپورٹنگ سے مختلف ہے جب اس کا انداز دفاعی تھا۔ اس وقت چینی میڈیا نے ہانگ کانگ پرعمل داری واپس ملنے کو نوآبادیاتی باب پر چینی کمیونسٹ پارٹی کی فتح کی صورت میں ظاہر کیا تھا۔ لیکن 1997 میں میڈیا یہ یقین دہانی بھی کر رہا تھا کہ چین ہانگ کانگ کے معاملے میں ’ایک ملک، دو نظام‘ کا ماڈل یقینی بنانے کے عزم پر کاربند رہے گا جس کے تحت ہانگ کانگ کی خوشحالی اور طرز زندگی کو تحفظ ملے گا۔
برطانیہ کے حوالے سے چین کے حالیہ بیانات سے اس کے بڑھے ہوئے اعتماد اور طاقت میں اضافے کا اظہار ہوتا ہے۔ 1997 میں چین کی مجموعی قومی پیداوار برطانیہ کی پیداوار کا صرف 62 فیصد تھی لیکن 2018 میں یہ برطانیہ کی مجموعی قومی پیداوار سے پانچ گنا زیادہ ہوگئی۔
غیرملکی مداخلت کے الزامات
چینی میڈیا ہانگ کانگ میں مظاہروں کا دائرہ کار پھیلنے کا الزام غیرملکی مداخلت کو دیتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق چینی سفیر نے ’برطانیہ کو سخت جواب دیا‘ اور کہا کہ وہ ’مداخلت بند کردیں۔‘
چین اندرون ملک بے چینی اور غیرملکی تنظمیوں کے درمیان روابط کے حوالے سے خاص طور پر حساس ہے، جنہیں سیاسی استحکام کے لیے سب سے بڑے خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
مداخلت کے الزامات اور برطانیہ کی منافقت کا ذکر ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ چین کے خبر رساں ادارے کے مطابق چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’برطانوی حکمرانی کے دور میں انتخابات اور مظاہروں کا کوئی حق نہیں تھا۔‘ چینی میڈیا نے ان خبروں کو نمایاں کیا ہے کہ چیف ایگزیکٹو اور قانون ساز کونسل کے انتخابات سے ہانگ کانگ کے ادارے کس طرح ایک موثر اندازِ حکومت میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ یہ صورتحال اس سے بہت مختلف ہے جب برطانوی حکمرانی کے تحت ہانگ کانگ کا گورنر لندن میں بیٹھ کر مقرر کیا جاتا تھا۔
سفارتی تنازع کے باجود اس بات کا امکان کم ہے کہ برطانیہ چین تعلقات زیادہ متاثر ہوں۔ 1997 میں ہانگ کانگ کی تحویل سے پہلے دونوں ملکوں کے تعلقات ہنگامہ خیز دور سے گزرے، پھر باہمی روابط نے اس کے بعد مشکلات کو بھی برداشت کیا ہے۔ دونوں ملکوں میں تعمیری تعلقات برقرار رکھنے کا سیاسی عزم موجود ہے۔
آنے والے وقت میں چین اور برطانیہ میں ہانگ کانگ کے حوالے سے خیالات بڑی حد تک مختلف رہیں گے۔ تاہم حقیقی آزمائش وہ خیالات نہیں جو میڈیا کوریج کو ہدایت دیتے ہیں بلکہ یہ سیاسی رہنماؤں کی دانش ہے جس سے کام لے کر انہیں اقدار، ذمہ داریوں اور اداروں کے معاملے میں اختلافات کو طے کرنا ہے۔
یہ اختلافات مزید نمایاں ہو جائیں گے جس کی وجہ یہ ہے کہ پالیسی کے حوالے سے چین کے اقدامات پر طویل عرصے سے چلنے آنے والی اختیارات کی مرکزیت اور بیوروکریسی سے متاثرہونے کے عمل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان اختلافات کا حل میڈیا کے ہاتھوں الفاظ کی جنگ میں تلاش نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کے لیے ان اختلافات کی نوعیت کو سمجھنا ہوگا کیونکہ چین متبادل عالمی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے۔
چِنگ چاؤ برطانیہ کی ڈرہم یونورسٹی کے سکول آف ماڈرن لینگویجز ایںڈ کلچرز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔
© The Independent