معیشت کسی بھی ریاست یا ملک کا ایک بنیادی اور انتہائی اہمیت کا حامل جزو ہوتا ہے اور کسی بھی ملک کے حکمرانوں کی پہلی ترجیح ہمیشہ یہی ہوتی ہے کہ وہ معاشی طور مستحکم رہے کیونکہ معاشی اعشاریوں کا دیگر انتظامی و عوامی عوامل پر براہ راست اثر پڑتا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں جو بھی آیا اس نے پہلے اپنے اور اپنے قریبی لوگوں کے فائدوں کے لیے فیصلے کیے، جس کا جتنا بس چلا اس نے پاکستان کو اس قدر لوٹا۔
بات صرف لوٹنے تک محدود نہیں رہی بلکہ سب نے ملک کر مملکت خداداد کو ایک ایسے گرداب میں پھنسا دیا کہ اب اس کو یہاں سے نکالنا بھی کسی کو نہیں آتا۔
حالیہ صورتحال یہ ہے کہ غریب کے لیے تو اس ملک میں رہنا پہلے سے ہی مشکل تھا اب متوسط طبقہ جو کسی بھی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتا ہے اس کے لیے بھی جینا دوبھر ہو چکا ہے۔ اب حالات ایسے ہو چکے ہیں کہ ہر دوسرا شخص کسی طرح پاکستان سے نکلنےکے چکر میں ہے۔ ہر کسی کی یہی خواہش ہے کہ کسی طرح یہاں سے نکلنے کی کوئی راہ ملے اور فوراً یہاں سے رفو چکر ہو جائے۔
ایسا سوچنے والے بھی اپنی جگہ حق پر ہیں کیونکہ جب آپ ہر طرف سے مایوس ہو جائیں تو آپ کا اس جگہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ غریب کے لیے تو کیا اب مڈل کلاس کے لیے بھی دو وقت کی روٹی کا حصول ناممکن نہیں تو ممکن بھی نہ رہا۔
اس وقت ملک میں مہنگائی تاریخ کی بلند ترین شرح پر پہنچ چکی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ ڈالر کی قیمت میں روز بروز ہوشربا اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ روپے کی گرتی ہوئی قدر معاشی بہتری کے دعوے کرتے حکمرانوں کا منہ چڑا رہی ہے۔ ملکی برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پیداواری صلاحیت میں روز بروز کمی ہوتی جا رہی ہے۔
زراعت جو پاکستان جیسے ملک کے لیے ایک انتہائی اہم معاشی جزو ہوتی ہے مسلسل خراب سے خراب تر ہو رہی ہے۔ صرف آم کی فصل پر غور کریں، وہ آم جو دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان ہیں، گذشتہ چند سال سے انتظامی نااہلی اور ناقص حکمت عملی کے باعث اپنے پیداواری صلاحیت میں گراوٹ کا شکار ہے۔
موجودہ معاشی صورتحال پر اگر پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کی بات کریں، تو ہمیں کوئی مثبت حالات دکھائی نہیں دیں گے کیوں کہ اب اس حکومت کو ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے، لیکن چیزیں خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہیں۔
معیشت کی حالت بد سے بدتر ہو چکی ہے لیکن حکومت جو کہ کچھ ہی دنوں میں اپنا دوسرا بجٹ پیش کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے، اب بھی گذشتہ حکومت کی طرح اپنی ناکامیوں کا سارا ملبہ پچھلی حکومت پر ڈال کر جان چھڑا رہی ہے۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ گذشتہ سال جب ن لیگ کی اتحادی حکومت نے شہباز شریف کی قیادت میں ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو اس وقت حالات کوئی اچھے نہیں تھے۔
تحریک انصاف کی انتظامی نااہلیوں اور سیاسی مفادات پر مبنی فیصلوں کے باعث ملکی معیشت کا انتہائی برا حال تھا۔ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا اور یہ بات سب سوچ رہے تھے کہ پاکستان اب ڈیفالٹ کرے کہ تب کرے۔ لیکن پی ڈی ایم کی حکومت اسی وعدے پر آئی کہ ہم اپنے تجربے سے ملک کو واپس اپنے پاؤں پر کھڑا کریں گے۔
ان کے اس وعدے پر سب نے یقین بھی کر لیا حتٰی کہ ان کے سیاسی مخالفین بھی سمجھ رہے تھے کہ شہباز شریف اور ان کی معاشی ٹیم پاکستان کو ان مسائل سے کسی طرح نکال ہی لے گی۔ آئی ایم ایف کا پروگرام بھی بحال کروا لے گی جو گزشتہ حکومت کی سیاسی انا کی نظر ہو چکا تھا۔
لیکن اب ایک سال سے زائد اور شہباز شریف بھی ایک وزیر خزانہ بدلنے کے بعد بھی حالات کنٹرول کرنا تو دور پہلے سے بدتر حالات میں ملک کو دھکیل چکے ہیں۔ اس وقت ڈالر تین 300 روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ باوجود اس کے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار گذشتہ دنوں ایک دفعہ پھر خود آکر ڈالر کی قیمت کم کروائی لیکن اس کے باوجود ڈالر ملک میں تقریباً ناپید ہو چکی ہے۔
صرف حالیہ چند مہینوں میں لاکھوں پاکستانی ملک کر چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ ملکی برآمدات جو پہلے سے نہ ہونے کے برابر ہیں ان میں بھی چودہ فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔اس وقت شرح سود بھی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، کاروباری طبقہ بھی اس صورتحال سے انتہائی متاثر نظر آتا ہے۔ ایل سیز بند ہونے کے سبب مختلف اشیائے ضروریہ کی قلت بھی پیدا ہوچکی ہے۔
مجموعی طور پر ملک میں معیشت کی صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے اور اس حوالے سے کوئی مثبت پیشرفت بھی نظر نہیں آرہی ماسوائے الزام تراشیوں اور گذشتہ حکمرانوں پر ملبہ ڈالنے کے۔
اکثر معاشی ماہرین کی رائے موجودہ صورتحال میں پاکستان کو اگر ڈیفالٹ سے بچنا ہے تو اسے ہر حال میں آئی ایم ایف پروگرام بحال کروانا ہوگا۔ کیونکہ آئی ایم ایف کا موجودہ پروگرام اس ماہ کے آخر میں ختم ہونے والا ہے اور امکان یہی ظاہر کیا جا رہا ہے حکومت یہ پروگرام نامکمل ہی ختم کر دے گی۔
آئی ایم ایف پروگرام بحالی کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو اس موضوع میں کوئی مثبت پیشرفت نظر نہیں آرہی ہے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات میں آنکھ مچولی کی صورتحال گذشتہ ایک سال سے مسلسل برقرار ہے۔
آئی ایم ایف کی سخت سے سخت شرائط پورے کرنے کے باوجود حکومت پلان بحال نہ کروا سکی اور حال ہی میں آئی ایم ایف حکام میں ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان کو اپنے اندرونی مسائل کو جمہوری طریقے سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ جس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ آئی ایم ایف کا اب بھی آسانی سے پروگرام بحال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے اندرونی معاملات پر بات کے بعد چند حکومتی حلقوں نے یہ ظاہر کیا کہ آئی ایم ایف کا ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا کوئی جواز نہیں بنتا اور یہ خبریں بھی سرگرم رہیں کہ آئندہ بجٹ کے بعد حکومت آئی ایم ایف کو خیر آباد کہنے جا رہی ہے لیکن کیا آئی ایم ایف سے ایسے جان چھڑانا اتنا آسان ہے؟ اسی طرح اگر آئی ایم ایف سے جان چھڑانا ہے تو آپ کے پاس بیک اپ پلان کیا ہے؟ کیوں کہ دوست ممالک نے بھی اب تک آپ کی مد د اس حساب سے نہیں دی جس طرح کی درکار ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آئندہ بجٹ جس کی تیاریوں میں حکومت مصروف ہے اس میں بھی کئی چیزیں غیر یقینی کا شکار ہیں۔ اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے بغیر حکومت کیسے بجٹ پیش کرے گی اور اگر وہ بجٹ پیش کرتے ہیں تو اس میں عوام کو کتنا ریلیف ملے گا اور اگر ریلیف نہیں ملتا تو موجودہ حکومت عوام میں کیسے جائے گی کیونکہ انتخابات میں اب صرف چند مہینے باقی ہیں۔
دوسری جانب یہ خبر بھی چل رہی ہے کہ حکومت کا یہ ارادہ ہے کہ ابھی کسی طرح سے یہ بجٹ پیش کیا جائے اور جتنا ہو سکے عوام کو ریلیف دیا جائے تاکہ آئندہ الیکشن میں جا سکیں آئی ایم ایف کو راضی کرکے نئے پلان کی منظوری لی جائے اور انتخابات میں چلے جائیں۔
اس وقت پاکستان انتہائی غیرمعمولی حالات سے گزر رہا ہے۔ بے شک ملک ڈیفالٹ کا شکار نہیں لیکن اگر ہم اسی طرح پرانی روش اختیار کر کے رکھیں گے تو وہ دن بھی دور نہیں کہ پاکستان میں بھی سری لنکا جیسے حالات پیدا ہو جائیں اور اللہ نہ کرے ایسے حالات پیدا ہوں۔
اگر خدانخواستہ پاکستان ڈیفالٹ ہو جاتا ہے تو یہاں حالات سر ی لنکا سے کافی مختلف ہوں گے اور لوگوں کو ایک وقت کی روٹی بھی نہ مل سکے گی۔
ابھی بھی وقت ہے حکمرانوں کو چاہیے کہ اپنے سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ملک کی فلا ح کے لیے کوئی مناسب راہ نکالیں جس سے غریب طبقہ کم سے کم متاثر ہو۔