عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا کہنا ہے کہ فنڈ کے عہدیدار پاکستانی حکام سے رابطے میں ہیں تاکہ جون کے اختتام سے قبل آئی ایم ایف بورڈ کے اجلاس کی راہ ہموار کی جا سکے۔
آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کے لیے قرض کا جاری پروگرام جون کے اواخر میں ختم ہو رہا ہے۔
پاکستان کی حکومت کی کوشش ہے کہ آئی ایم ایف کے بورڈ سے 1.1 ارب ڈالر قرض کی آخری قسط کی منظوری جلد حاصل کر سکے جس کے لیے کئی مہینوں سے کوششیں جاری ہیں۔
عالمی مالیاتی ادارے کے پاکستان میں مشن کے سربراہ نیتھن پورٹر نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ مضبوط پالیسیوں کو برقرار رکھنے کی خاطر شراکت داروں سے مالی معاونت کا حصول پاکستان کے لیے اس وقت کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔
نیتھن پورٹر نے بیان میں کہا کہ اس مقصد کے لیے آئی ایم ایف کا عملہ پاکستانی حکام سے رابطے میں ہے تاکہ ’جون کے آخر میں موجودہ پروگرام ختم ہونے سے پہلے بورڈ کے اجلاس کی راہ ہموار کی جا سکے۔‘
پاکستان نے آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ جون میں پیش کرنا ہے جس کی تاریخ کا اعلان تاحال نہیں کیا گیا ہے۔
تاہم اتوار کو پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بیان دیا تھا کہ پاکستان اپنے بجٹ کی تفصیلات آئی ایم ایف ساتھ شیئر کرے گا۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت چاہتی ہے کہ آئی ایم ایف جون کے شروع میں پیش کیے جانے والے بجٹ سے قبل اپنے نویں جائزے کی منظوری دے کیونکہ اس کے لیے تمام شرائط پہلے ہی پوری ہوچکی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رواں سال فروری میں آئی ایم ایف کے ایک وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا جس میں پاکستان کو قرض کی 1.1 ارب ڈالر کی قسط کی ادائیگی کے لیے مذاکرات ہوئے لیکن اس بارے میں کوئی اتفاق رائے نا ہو سکا۔
آئی ایم ایف بورڈ کی جانب سے نویں جائزہ رپورٹ کی منظوری کی صورت میں 2019 میں طے پانے والے ساڑھے چھ ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پروگرام کے تحت پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر کی قسط جاری ہو سکے گی۔
پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی مسلسل کمی آ رہی ہے حکومت چاہتی ہے کہ معاشی صورت حال کو سنھبالا دینے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کو مکمل کیا جائے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستانی حکومت سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ وہ معاشی اصلاحات کا عمل جاری رکھے۔ منگل کو بھی ایک بیان میں ناتھن پورٹر نے کہا کہ موجودہ اقتصادی اور مالیاتی چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے پاکستان کو مستقل بنیادوں اقدامات اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔