افغان طالبان نے رواں برس 25 اپریل کو اسلامک سٹیٹ آف خراسان (آئی ایس کے) کے نظریاتی کارکن اور کابل ہوائی اڈے پر حملے کے ماسٹر مائنڈ ضیا الدین ملا محمد عرف ابو سعد الخراسانی کو قتل کر دیا۔
اگلے دن امریکہ نے کوئی تفصیلات فراہم کیے بغیر اس موت کی تصدیق کی۔ اس سے قبل یہ خیال کیا جارہا تھا کہ وہ امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا، تاہم بعد میں اس بات کی تصدیق ہوئی کہ طالبان کے جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس (جی ڈی آئی) نے یہ کارروائی کی ہے۔ تاہم طالبان بھی اس حملے کے بارے میں خاموش رہے۔
اس قتل کی مزید تفصیلات فراہم کرنے میں طالبان اور امریکہ کی ہچکچاہٹ داعش خراسان کے خلاف دونوں کے درمیان کچھ خفیہ حکمت عملی کی جانب ممکنہ اشارہ تھا۔
تاہم 25 اپریل کی کارروائی کوئی پہلا یا آخری موقع نہیں تھا جب امریکہ اور طالبان نے داعش خراسان کے خلاف ایک مبینہ خفیہ کردار نبھایا۔ 2020 میں امریکہ نے ڈرون اور فضائی حملوں کے ذریعے افغانستان کے صوبہ کنڑ میں داعش خراسان کے جنگجوؤں کو ختم کرنے میں طالبان کی مدد کی۔
مثال کے طور پر امریکی ڈرونز کے مدد سے داعش خراسان کی پوزیشن کی شناخت کی، جس کی بنیاد پر طالبان نے انہیں روکا۔ کنڑ کی پہاڑی وادیوں میں امریکی ڈرون حملوں کے بعد طالبان زمینی حملے کرتے تھے اور اس غیر اعلانیہ سرکاری کردار نے اس عرصے کے دوران داعش خراسان کی تنظیمی اور آپریشنل طاقت کو کم کرنے میں مؤثر طریقے سے کام کیا۔
16 مارچ سے 16 اپریل کے درمیان طالبان نے مزار، کابل، نمروز، کنڑ اور افغانستان کے دیگر علاقوں میں داعش خراسان کے رہنماؤں اور ہمدردوں کے خلاف 15 ہائی پروفائل آپریشنز کیے۔ ان چھاپوں نے داعش خراسان کے ہائی پروفائل حملے کرنے کی اور اس کے سوشل میڈیا آپریشنز کی صلاحیت کو متاثر کیا۔
فروری اور مئی کے عرصے کے دوران، جی ڈی آئی نے داعش خراسان کے نائب سربراہ انجینیئر عباس عمر، انٹیلی جنس کے سربراہ قاری فتح، برصغیر کے سربراہ اعجاز امین آہنگر، ایک اہم نظریاتی ضیا الدین ملا محمد، اس کی شوریٰ کے رکن ابو عمر آفریدی، اہم ٹرینر اور دھماکہ خیز مواد بنانے کے ماہر سلمان تاجکستانی سمیت دیگر اہم رہنماؤں کو مار دیا۔
بہر حال جی ڈی آئی کے داعش خراسان مخالف آپریشنز نے ایک بار پھر امریکہ - طالبان تعاون کے کردار کو واضح کیا۔ 2020 میں ہونے والے دوحہ معاہدے کے دو خفیہ ضوابط کے تحت طالبان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ افغانستان کی سرزمین دوسرے ممالک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو۔
خفیہ ضابطوں کے مطابق امریکہ اور طالبان کے انسداد دہشت گردی تعاون کی تفصیلات کو عام نہیں کیا جا سکتا۔
تاہم داعش خراسان کے خلاف طالبان کی مہم نے اس وقت زور پکڑا جب امریکی سینٹرل کمانڈ (CENT-COM) کے سربراہ جنرل ایرک کوریلا نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بریفنگ دی کہ داعش خراسان چھ مہینوں میں افغانستان سے ایشیا اور یورپ میں حملے کرنے کی صلاحیتیں پیدا کرسکتی ہے۔
دسمبر 2022 میں امریکی انٹیلی جنس نے قطر میں فیفا ورلڈ کپ سمیت مختلف مغربی سفارت خانوں، گرجا گھروں اور کاروباری مراکز کو نشانہ بنانے کے لیے نو دہشت گردانہ منصوبوں کے بارے میں مخصوص معلومات فراہم کیں۔
ان منصوبوں کو افغانستان سے مربوط کیا گیا اور فروری 2023 میں ان کی تعداد بڑھ کر 15 ہو گئی۔ اسی وقت داعش خراسان نے جنوبی اور وسطی ایشیا میں بھی حملے کرنے کے حوالے سے خود کو تیار کر لیا ہے۔ اس نے پاکستان میں حملے کیے، ازبکستان اور تاجکستان میں راکٹ داغے اور ساتھ ہی ساتھ روسی اور پاکستانی سفارت خانوں اور کابل میں چینی شہریوں کے ایک ہوٹل کو نشانہ بنایا۔
ان حملوں کے بعد قطر کے ذریعے طالبان پر امریکی دباؤ بڑھ گیا اور داعش خراسان کے مسئلے کو حل نہ کرنے کی صورت میں ڈرون حملوں کی دھمکی دی گئی۔
کچھ ہفتوں کے بعد امریکی انٹیلی جنس کے ادارے نے داعش خراسان کی بڑھتی ہوئی صلاحیتوں اور تنظیمی رسائی کی طرف اشارہ کیا۔ جیسا کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) کی اپریل میں رپورٹ میں بتایا گیا کہ داعش خراسان نے افغانستان کے 34 صوبوں میں اپنی موجودگی بڑھا دی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مئی میں قطری وزیراعظم محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے قندھار کا دورہ کیا جہاں انہوں نے طالبان کے روحانی پیشوا شیخ ہبت اللہ اخوندزادہ سے خفیہ ملاقات کی۔ انہوں نے ہبت اللہ کو عالمی برادری کے تحفظات سے آگاہ کیا اور بعد ازاں امریکی صدر جو بائیڈن کو ہبت اللہ سے ملاقات اور رابطہ کاری کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔
ہبت اللہ سے براہ راست ملاقات کا فیصلہ نچلی سطح پر مذاکرات کی ناکامی کے بعد کیا گیا۔ کسی بھی غیر ملکی رہنما کی ہبت اللہ سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ طالبان کے سپریم لیڈر کی کسی غیر ملکی رہنما سے ملاقات پر آمادگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ گروہ عالمی برادری کے ساتھ بات چیت کا خواہش مند ہے۔
اس ملاقات کے بعد طالبان نے قائم مقام وزیراعظم ملا حسن محمد اخوند کو تبدیل کرکے مولوی محمد کبیر کو قائم مقام وزیراعظم مقرر کیا۔
اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد ملا حسن کو اس بات کا یقین دلانے کے لیے مقرر کیا گیا تھا کہ یہ گروپ افغانستان میں شریعت کے نفاذ کے مقصد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ ملا حسن طالبان کے پرانے خیالات کی نمائندگی کرتے ہیں۔
دو سال بعد طالبان نے اقتدار پر اپنی گرفت کو مکمل طور پر مضبوط کر لیا ہے اور وہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ بات چیت کے لیے پراعتماد ہیں اس لیے ملا حسن کی جگہ مولوی کبیر کو لایا گیا جو کہ اعتدال پسند اور عملیت پسند سمجھے جاتے ہیں۔
ان کی تقرری اس بات کا اشارہ ہے کہ طالبان بین الاقوامی برادری کے تحفظات پر سنجیدہ اور تعمیری تعلقات چاہتے ہیں۔
مولوی کبیر کی تقرری ایک پیغام ہے کہ طالبان وقت کے ساتھ لڑکیوں کے سکول کھولیں گے جو کہ مارچ 2022 میں بند کر دیے گئے تھے اور عالمی برادری کے سامنے واضح کر دیا گیا کہ ’اسلامی اصولوں‘ کے مطابق ایک نئی تعلیمی پالیسی عمل درآمد کے آخری مراحل میں ہے، جس سے لڑکیوں کے سکول دوبارہ کھولنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
داعش خراسان کے خلاف کامیابیوں کے ساتھ یہ پیش رفت قطر کے ذریعے طالبان اور امریکہ کے درمیان گہرے تعلقات کا باعث بنے گی۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔