پاکستان اس وقت سیاسی و معاشی اعتبار سے تاریخ کے بدترین دور سے گزر ر ہا ہے۔ معاشی طور پر مملکت خداداد پر ہر لمحہ ڈیفالٹ کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر ہیں، عوام کے بیچ نفرتوں کی دیواریں بھی تاریخی سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ غریب مہنگائی کی چکی میں پس پس کر ہلکان ہوچکا ہے۔
نوجوان تعلیم یافتہ طبقہ کسی طریقے سے یہ ملک چھوڑنے کی فکر میں ہے۔ ایسے میں سیاسی جماعتیں آپس میں دست و گریباں ہیں۔ یہ سارے حالات یک دم پیدا نہیں ہوئے۔ حالات کو اس نہج پر پہنچنے میں بڑا عرصہ لگا۔ عام انتخابات کو پانچ سال کا عرصہ مکمل ہونے کو ہے اور نئے انتخابات کے لیے کوششیں شروع ہوچکی ہیں۔ اسی تناظر میں ہم آج ملک کے مجموعی حالات پر نظر ڈالتے ہیں۔
آج سے پانچ سال قبل پاکستان تحریک انصاف تبدیلی کے نعروں کے ساتھ پاکستان میں اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئی۔ عمران خان کو نیا پاکستان بنانے کے لیے چاہے جس طریقے سے بھی لیکن مینڈیٹ مل گیا۔
عمران خان اور ان کی جماعت نے الیکشن میں بڑے بڑے دعوے کیے جس سے پہلے سے روایتی سیاسی جماعتوں سے تنگ عوام کو ایک نئی امید ملی۔ عوام نے ان سے امیدیں وابستہ کرلیں۔ اقتدار میں آنے کے فوراً بعد خان صاحب نے اپنے بلند و بانگ دعوؤں کو مزید بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ چاہے وہ ایک کروڑ نوکریوں کی بات ہو یا 50 لاکھ گھر، غرض انہوں نے لوگوں کی توجہ اپنے طرف مبذول کرادی۔
لیکن جب ان وعدوں پر عمل کرنے کا وقت آیا وہ اور ان کی جماعت ڈیلیور کرنے میں ناصرف ناکام رہی بلکہ اپنے دعوؤں کے برعکس، سابقہ حکمرانوں کی طرح وہ بھی عوام کے بجائے صرف اپنے قریبی لوگوں کو نوازنے میں مصروف ہوگئی۔
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کو ملکی تاریخ کے نئے باب میں شامل کرا دیا۔ اسی طرح مختلف آزاد اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق ان کے دور میں کرپشن بھی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی۔ بات یہی ختم نہیں ہوئی بلکہ ملکی معیشت کا بھٹہ بھی ان کے دور میں ہی تقریباً بیٹھ گیا۔
پی ٹی آئی کے دور کے آغاز میں سب کو یہی امیدیں تھیں کہ یہ وہ پہلی حکومت ہوگی جس کے وزیراعظم اپنا پانچ سالہ دور اقتدار مکمل کریں گے لیکن یہ امید امید ہی رہی۔ جب ان کی حکومت کو چار سال بھی پورے نہ ہوئے تھے تو پی ڈی ایم کے اتحاد نے پی ٹی آئی اور عمران خان کی مسلسل کوششوں کے باوجود ان کی حکومت کا تختہ عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے الٹ دیا۔
تحریک عدم اعتماد کو روکنے کے لیے عمران خان نے تقریباً تمام ہی ترکیبیں آزمائیں بلکہ اس سلسلے میں آئین شکنی سے بھی گریز نہ کیا لیکن کوششوں کے باوجود وہ اپنی حکومت کو بچا نہ سکے۔
اس کے بعد پی ڈی ایم اتحاد نے شہباز شریف کو وزیراعظم منتخب کرلیا اور انہوں نے مسائل میں گھری ملکی معیشت ٹھیک کرنے کا وعدہ لے کر اقتدار کا منصب سنھبال لیا۔ باوجود اس کے کہ اگر وہ ان مسائل کو حل نہ کرسکے تو یہ ان کے لیے سیاسی موت کا باعث بن جائے گا۔
ان کے اقتدار کے آغاز میں ہی ان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھا کہ وہ کسی طرح سے معاشی مسائل کو حل کریں اور اس سلسلے میں لوگوں کو یہ امید تھی کہ شاید وہ اور ان کی ٹیم اپنے تجربے سے معاشی مسائل پر قابو پالے گی لیکن یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔
معیشت جو کہ ڈیفالٹ کی نہج پر پڑی تھی اس کی بحالی کے لیے سب سے زیادہ اہم اور ضروری یہ تھا کہ آئی ایم ایف سے تعلقات کو بحال کیا جائے اور ان سے بیل آؤٹ پیکج حاصل کیا جاسکے لیکن گذشتہ حکومت کی نااہلی اور وعدہ خلافیوں کے باعث یہ بات انتہائی مشکل تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ انہیں پی ٹی آئی کی صورت میں ایک مضبوط اپوزیشن کا سامنا بھی تھا جو اقتدار سے نکلنے کے بعد پہلے سے زیادہ مضبوط نظر آرہی تھی۔ عمران خان کی جانب سے مسلسل بڑے بڑے جلسوں نے حکومت کو پریشان کیے رکھا تھا وہیں آئی ایم ایف سے مذاکرات بھی کسی مثبت نتیجے کی طرف نکل نہیں پا رہے تھے۔
اس ساری صورتحال میں آئی ایم ایف نے حکومت کو تگنی کا ناچ ناچنے پر مجبور کیے رکھا اور مسلسل کڑی سے کڑی شرائط لگانے کا سلسلہ شروع کردیا۔ آئی ایم ایف کی شرائط کو مانتے مانتے حکومت کی ایسی کی تیسی ہوچکی تھی لیکن ریلیف تو دور کی بات جو حالات پہلے تھے اس سے بھی کئی گنا زیادہ حالات خراب ہوچکے تھے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں دگنی سے بھی زیادہ بڑھانی پڑیں۔ سود کی شرح میں بے تحاشہ اضافہ کرنا پڑا، اس کے علاوہ ڈالر کی قیمتوں کو نہ صرف پر لگ گئے بلکہ ڈالر مارکیٹ میں نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں تاریخی کمی بھی اس حکومت کے ماتھے پر لگ گئی۔ لیکن آئی ایم ایف کے سامنے پچھلے ڈیڑھ سال سے ناک رگڑنے اور وزیر خزانہ تبدیل کرنے کے باوجود کوئی مثبت پیشرفت نہ ہوسکی۔
دوسری جانب تحریک انصاف نے بھی اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام میں حکومت اور اداروں کے خلاف بھرپور اشتعال اور نفرت بھر دی لیکن اس سارے عمل میں انہوں نے کچھ بڑی غلطیاں کر دیں جس کا خمیازہ وہ نہ صرف اب بھر رہے ہیں بلکہ وہ مستقبل میں بھی ان غلطیوں کو یاد کرکے واپس اس طرح کی غلطی کرنے سے پہلے ہزار دفعہ ضرور سوچیں گے۔
پہلے تو انہوں نے دو بڑے صوبوں میں قائم اپنی حکومتیں ختم کرکے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارلی اور اس کے بعد اداروں کے خلاف مسلسل اشتعال انگیز بیانات اور معصوم نوجوانوں کو اکسانے کے لیے جس طرح سے پروپیگنڈا اور جھوٹ کا سہا را لیا، وہ پوری دنیا نے دیکھا۔
ان بے بنیاد الزامات اور غیر ذمہ دارانہ بیانات کے باعث ہوسکتا ہے انہوں نے وقتی طور پر لوگوں میں داد سمیٹی ہو لیکن ان کے اس عمل سے ملکی اداروں کے خلاف جو نفرت پیدا ہوئی اس کی مثال نہیں ملتی۔ جس کا نتیجہ ’سانحہ نو مئی‘ جیسے اندوہناک اور دل دہلانے والے واقعات کی صورت میں نکلا ۔
سانحہ نو مئی کے بعد جس طرح سے پی ٹی آئی میں پھوٹ پڑی وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اس سارے معاملے کے کس طرح سے الیکٹیبلز اور موسمی پرندے پی ٹی آئی کا تاریک مستقبل دیکھ پر پتلی گلی سے رفو چکر ہوئے اس کا تماشہ ساری دنیانے دیکھا۔
اب ان سارے حالات و واقعات کے بعد پاکستان کی تاریخ کے یہ بدترین پانچ اپنے اختتام کے قریب ہیں اور نئے الیکشن کے لیے بحث و مباحثوں کے ساتھ ساتھ سیاسی جوڑ توڑ کا بھی بھرپور آغاز ہوچکا ہے۔
پی ٹی آئی میں تقسیم کے بعد ان ہی کے سابقہ اراکین علیم خان اور جہانگیر ترین کی زیر قیادت کے نئی سیاسی جماعت بھی اپنے سیاسی مستقبل کے لیے جدوجہد کا آغاز کرچکی ہے۔
جہاں تک بات ہے عام انتخابات کی تو اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا کیوں کہ پاکستان میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن الیکشن کی تیاریوں پر بات کریں تو اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے کیمپ میں اس وقت مکمل خاموشی چھائی ہوئی ہے، ایک طرف ان کی سینیئر قیادت پارٹی چھوڑ چکی ہے اور ان کے قائد بھی نو مئی کے واقعات کے بعد اپنی مقبولیت کھوچکے ہیں۔
شاہ محمود قریشی البتہ خان صاحب کے شانہ بشانہ ہیں لیکن ان کا مستقبل کیا ہوگا یہ دیکھنے کے قابل ہوگا۔
اس کے علاوہ جہانگیر ترین کی نئی جماعت کی سیاسی سرگرمیاں انتہائی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہیں اور پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کی اکثریت ان کے ساتھ شامل ہو رہی ہے، ان کی سرگرمیوں سے یہ لگ رہا ہے کہ ان کی یہ کنگز پارٹی آئندہ الیکشن میں ایک اہم کردار ادا کرسکتی ہے باقی تو وقت ہی بتائے گا۔
دوسری جانب اس سارے منظر نامے میں مسلم لیگ ن کافی فکرمند نظر آرہی ہے کیوں کہ گذشتہ ایک سال سے زائد کا عرصہ ان کے لیے کافی مشکل رہا ہے۔ ایک طرف مہنگائی میں مسلسل اضافے اور معاشی حالات نے ان کی مقبولیت کو پہلے سے زیادہ متاثر کیا دوسری جانب نواز شریف کی غیر موجودگی بھی ان کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔
شہباز شریف اور ان کی ٹیم سرتوڑ کوششوں کے باوجود آئی ایم ایف سے ڈیل کرنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں جبکہ حال ہی پیش کیا جانے والا بجٹ بھی ان کی مصیبتوں میں مزید اضافہ کررہا ہے جس کے باعث آئی ایم ایف مزید غصے میں نظر آرہا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے خلاف ہونیوالی بیان بازی بھی کوئی اچھی بات نہیں۔ اس سارے منظر نامے اب ن لیگ کے لیے یہ بقا کی جنگ ہے کیوں کہ اب وہ ان حالات میں عوام کے پاس کیا بیانیہ لے کر جائیں گے اور پنجاب میں اپنی جماعت کو کیسے مقبول کریں گے یہ انتہائی اہم سوال ہے۔
اس ساری صورت حال میں کوئی جماعت اگر صحیح مزے لے رہی ہے وہ پیپلز پارٹی ہے جو ایک طرف حکومت میں تو حصہ دار ہے لیکن ساتھ ہی وہ اپنے آپ کو منفی حکومتی پہلو سے مسلسل بچانے میں کامیاب رہی ہے اور ساتھ ہی آئندہ الیکشن کے لیے خاموشی سے اپنی تیاریوں میں مصروف ہے۔
اس وقت پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری کی ساری توجہ پنجاب میں نہ صرف الیکٹیبلز کو اپنی طرف مائل کرنے پر مرکوز ہے بلکہ ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح پنجاب میں اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کیا جاسکے اور پی ٹی آئی اور ن لیگ کی جگہ وہاں سے مینڈیٹ حاصل کرسکے۔
اس سار ے عمل میں کس کی جیت ہوگی اور کون ہارے گا، یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس میں پاکستان کے عوام کو کیا حاصل ہوگا یہ سب سے زیادہ اہم معاملہ ہے کیوں کہ گذشتہ 70 سالوں میں صرف اشرافیہ نے اپنے مفاد میں 24 کروڑ لوگوں کے فیصلے کیے اور اگر آئندہ بھی ایسے ہی رہا تو اس بے بس عوام کا کیا ہوگا۔ یہ کس کے پاس جائیں گے۔