کراچی: دیہی خواتین کے ہاتھوں سے بنے ہینڈی کرافٹس کی نمائش

صوبہ سندھ کے محکمہ ثقافت کے زیر اہتمام دو روزہ نمائش میں صوبے کے دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین نے ہاتھ سے بنائی ہوئی اشیا پیش کیں۔

محنت کش خواتین کی حوصلہ افزانئی کی غرض سے سندھ کے محکمہ ثقافت نے کراچی میں دو روزہ دستکاری نمائش کا اہتمام کیا، جس میں صوبے کے 29 اضلاع سے خواتین نے حصہ لیا۔

کراچی میں لگنے والی ’ھنر‘  کرافٹ میلے میں سندھ کی محنت کش خواتین کے لیے عید کی مناسبت سے ہینڈی کرافٹس کی نمائش لگائی گئی، جس میں 70 سے زیادہ سٹالز لگائے گئے، جن میں دیہی خواتین نے ہاتھوں سے بنی چوڑیاں، کھسے، رلی، کوٹیاں، اور دوسرے ملبوسات رکھے۔ 

نمائش میں دھاگے اور شیشوں کی مدد سے ہاتھ سے تیار کردہ ٹوپیاں، اجرک، ملبوسات، پنکھے، برتن اور دیگر آرائشی اشیا کو نمائش کی زینت بنایا گیا ہے۔

یوں تو بہت سے ’آرٹیزن‘  کاریگر خواتین نے اپنی دستکاریاں پیش کیں لیکن تھر سے آنے والی دو بہنیں سوڈی کھولی اور لکچمی کا سٹال کافی بارونق رہا، جس کی خاص وجہ ان کا کلچرل انداز تھا۔

 سو ڈی کھلوی اور لکچمی نے تھر کا ثقافتی لباس لہنگا ساڑھی زیب تن کیا ہوا تھا اور ہاتھوں میں پہنے جانے والے چوڑے تھے۔ ان کے ہاتھ سے بنائی گئی شیشے لگے ملبوسات اور رلی، تھری بہنوں کا سٹال شوخ رنگوں سے بھرپور تھا۔

سو ڈی کھولی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ وہ صرف کاریگر ہی نہیں بلکہ کاشتکار بھی ہیں، ماں بھی ہیں، اور دستکاری بھی کرتی ہیں۔

’میرا سارا دن کاشتکاری میں گزرتا ہے، جبکہ بعد میں گھر کا کام کاج بھی کرتی ہوں، بچوں کو بھی دیکھنا ہوتا ہے اور دور داراز مقامات سے پانی بھر کر گھر لے کر آنا ہوتا ہے۔

اتنی  ڈھیر ساری مصروفیات کے باوجود وہ رات کو بیٹھ کر دستکاری کے فن پارے تیار کرتی ہیں جس میں کبھی تو پوری رات بھی گزر جاتی ہے۔

سو ڈی کھولی کا کہنا تھا کہ ’دستکاری کا کام بہت محنتت طلب ہے، شیشہ ورک مہینوں میں تیار کیا جاتا ہے، جبکہ رلی تیار کرنے میں بہت خرچہ اور محنت لگتی ہیں کیونکہ ایک ایک کٹ پیس کو ہاتھ سے ٹانکنا وہ بھی مضبوطی سے اس میں کافی وقت لگ جاتا ہے اور ہاتھ کی انگلیاں بھی زخمی ہو جاتی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سو ڈی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ا نکا شوہر مزدوری کرتا ہے جس سے گھر کا خرچ مشکل سے چلتا ہے اور وہ اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے کے لئے نہ صرف کھیتوں میں کاشت کاری کرتی ہیں بلکہ ہاتھ سے بنی اشیا کو شہروں میں جا کر فروخت بھی کرتی ہیں۔

ہنر کرافٹس میں آئی دیگر خواتین کے مطابق: کسی زمانے میں گاؤں کی خواتین میں گھر سے نکلنے کا کوئی تصور نہ تھا، لیکن اب گاؤں کی خواتین اپنے پاؤں پر کھڑی ہیں، اب وہ نہ صرف اپنے آپ بلکہ غربت مٹانے کے لئے پورے خاندان کو سپورٹ کر رہی ہیں۔‘

ڈائریکٹر جنرل ثقافت سندھ منور علی مہیسر نےانڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ اس نمائش کے نتیجے میں دیہی خواتین کی استعداد میں اضافہ ہو گا اور وہ بھی ملکی معیشت میں کردار ادا کر سکیں گی۔ ’نمائش کا مقصد دستکاری، ہنر اور ثقافتی ورثے کو نئی نسل، ماہرین اور کاروباری اداروں سے منسلک طبقے میں روشناس کرانے کے ذریعے فروغ دینا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا