سعودی عرب میں رمضان کی آمد سے قبل اس مناسبت سے سڑکوں اور بازاروں کو مختلف اشیا اور طریقوں سے مزین کیا جاتا ہے۔
ان اشیا میں لال رنگ کا ایک منقش کپڑا خاص اہمیت رکھتا ہے جو رمضان کے دوران ہر چھوٹے بڑے بازار اور ہر اہم عمارت پر نظر آتا ہے۔
سعودی عرب میں اس کا نام ’قماش رمضان‘ یعنی رمضان کا کپڑا مشہور ہو گیا ہے۔
سعودی ریسرچ اینڈ میڈیا گروپ کے ذیلی ادارے ’ثمانیہ‘ نے گذشتہ دنوں اس کپڑے کے متعلق ایک رپورٹ تیار کی جس میں بتایا گیا کہ یہ کپڑا دراصل مصر کے قدیمی فن ’الخیامیہ‘ کا تسلسل ہے۔
’الخیامیہ‘ کیا ہے؟
مصر کے دارالحکومت قاہرہ کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق الخیامیہ کپڑوں پر رنگ اور نقش نگاری کا فن ہے جس کا آغاز ہزاروں سال قبل قدیم مصر میں ہوا اور جو نسل در نسل چل رہا ہے۔
’ثمانیہ‘ کی رپورٹ کے مطابق قاہرہ میں آج کل ’الخیامیہ‘ نامی ایک سڑک ہے، جہاں اس فن کے ماہرین بیٹھتے ہیں اور اب بھی چند پرانے کاریگر ہاتھ سے نقش نگاری کرتے ہیں۔
مصر میں کپڑوں پر نقش کرنے کا کئی صدیوں پرانا فن دیکھ کے ذہن میں فوراً برصغیر کے کپڑوں اور ان پر نقش نگاری کا خیال آتا ہے کیوں کہ ہندوستان میں بھی یہ فن انتہائی قدیم ہے اور پاکستان کی سندھی اجرک اس کی ایک واضح مثال ہے۔
قدیم سندھی تہذیب پر تحقیق کرنے والی ماہرِ آثار قدیمہ نورجہاں بلگرامی کے ایک مقالے کے مطابق اجرک کا تعلق ہزاروں برس قدیم موہن جو دڑو تہذیب سے ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سندھ کی اجرک اور مصر کے الخیامیہ فن میں کوئی تعلق ہے؟
کیا ہزاروں سال پہلے منقش کپڑے انڈیا سے مصر برآمد کیے گئے تھے؟ اور اس کے بعد اس فن کو وہاں آگے بڑھایا گیا تھا؟ یا دونوں خطوں کے فنون میں مماثلت محض اتفاقیہ تھی؟
ان سوالوں کا حتمی اور یقینی طور پر جواب دینا مشکل ہے مگر جوابات کی کھوج کے دوران دو قدیم تہذیبوں کے درمیان تجارت و تبادلے کے متعلق جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ بہرحال دلچسپی سے خالی نہیں۔
وادی سندھ کی تجارت
وادی سندھ کی تہذیب اِنڈس ویلی سویلائزیشن کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں کیا جاتا ہے۔ موہن جو دڑو اور ہڑپہ کے آثار اسی تہذیب کی نشانیاں ہیں۔
صحافی ضرار کھوڑو اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ وادی سندھ کی تہذیب کا مجموعی رقبہ تقریباً پاکستان کے رقبے کے برابر تھا اور ان کی تجارتی سرگرمیاں وسیع تھیں۔
رپورٹ کے مطابق قدیم سندھ کی بیرونی تجارتی سرگرمیاں موجودہ عراق تک پھیلی ہوئی تھیں اور اس تجارت میں لوتھل بندرگاہ خاص اہمیت کی حامل تھی جو موجودہ دور میں ہندوستانی ریاست گجرات میں واقع ہے۔
قدیم مصر اور ہندوستان کے درمیان تجارت
آکسفورڈ کی تاریخ قدیم مصر کے مطابق مصر پر رومی سلطنت کے قبضے کے بعد مصر اور ہندوستان کے درمیان باقاعدہ اور مستقل طور پر تجارت ہوتی تھی۔
اس سلسلے میں قدیم ترین دستاویز سمندری سفر کی رہنما کتاب Periplus of the Erythrean Sea ہے جو تقریباً پہلی صدی عیسوی میں لکھی گئی تھی۔
اس کتاب میں مصر سے ہندوستان جانے والے تاجروں کو ہدایت دی گئی کہ وہ جولائی میں مصر سے روانہ ہو جائیں اور نومبر سے قبل ہندوستان سے واپس نہ آئیں تاکہ ان کو مون سون سیزن سے بھرپور فائدہ ہو۔
آکسفورڈ کی تاریخ کے مطابق اس زمانے میں جنوبی ہندوستان کی موزیریس بندرگاہ سے کپڑا مصر کے شہر اسکندریہ برآمد کیا جاتا تھا۔
قصیر القدیم کے آثار
اس تاریخ سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں: پہلی یہ کہ وادی سندھ کی تہذیب کی بیرونی تجارتی سرگرمیاں عراق تک پھیلی ہوئی تھی۔
دوسری یہ کہ رومی سلطنت کے دور میں مصر اور ہندوستان کے درمیان باقاعدہ تجارتی تعلقات تھے جن میں ہندوستان سے دیگر اشیا کے علاوہ کپڑے بھی برآمد کیے جاتے تھے۔
لیکن کیا دونوں خطوں کے درمیان نقش نگاری کے فن اور مخصوص منقش کپڑوں کے تبادلہ کے بھی کوئی شواہد ہیں؟
اس سلسلے میں یونیورسٹی آف شکاگو کے اورینٹل انسٹیوٹ میں آثار قدیمہ کے ماہر ڈونالڈ وائٹ کومب کی تحقیق اہم ہے، جس میں انہوں نے 1982 میں مصر کے ساحلی علاقے قصیر القدیم میں دریافت ہونے والے آثار قدیمہ کا ذکر کیا ہے۔
ڈونالڈ وائٹ کومب کی تحقیق کے مطابق اس علاقے میں دریافت ہونے والے آثار میں ہندوستانی منقش کپڑے کے آثار بھی شامل تھے جو کہ یہاں برآمد کیے گئے تھے۔
جنوب ایشیائی فن کے تاریخ دان اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ڈاکٹر روتھ بارنس نے شکاگو یونیورسٹی میں واقع کیلسی میوزیم میں محفوظ مصر سے دریافت ہونے والے ہندوستانی منقش کپڑوں کے آثار پر تحقیق کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق ہندوستانی کپڑا صدیوں سے دنیا بھر میں برآمد کیا جارہا ہے مگر کپڑوں کے آثار کا سالہا سال محفوظ رہنا مشکل ہوتا ہے۔
تاہم مصر میں دریافت ہونے والے آثار اس حوالے سے اہم ہیں کہ وہ محفوظ ہیں اورمصر اور ہندوستان کے درمیان صدیوں پرانی کپڑے کی تجارت کی دلیل ہیں۔
ڈاکٹر روتھ بارنس کی یہ تحقیق بلاک پرنٹڈ کپڑوں سے متعلق ہے اور اجرک پر ہونے والی نقش نگاری بلاک پرنٹ کی ہی ایک قسم ہے۔
ہندوستانی نقش نگاری مصر کیسے پہنچی؟
مذکورہ حقائق کی روشنی میں انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے سماجی تحقیق کی طالب علم علیزہ ندیم کا کہنا تھا کہ دو تہذیبوں کے درمیان اشیا اور فنون کا تبادلہ تجارت اور ثقافتی پھیلاؤ کے نتیجے میں ہوتا ہے جس میں سفر، سیاحت اور باہمی رابطے اہم ہیں۔
ان کہنا تھا کہ ’اس حوالے سے حتمی طور پر کچھ کہنا ناممکن ہے بالخصوص اگر تبادلہ کا عمل صدیوں پرانا ہو۔
’سعودی عرب میں رمضان کی تیاریوں میں استعمال ہونے والے کپڑے اور اجرک کے درمیان تعلق کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا شاید مبالغہ آرائی ہو مگر یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ قدیم تہذیبیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھیں اور وقت اور مسافت کی دوری کے باوجود مختلف خطوں میں کچھ بنیادی انسانی قدریں مشترک تھی اور ہمیشہ رہیں گی۔