’یونانی کوسٹ گارڈ کی رسی نے کشتی ڈبوئی‘: بچ جانے والے افراد کی داستان

پناہ کے متلاشیوں نے سمگلروں کے ظلم و ستم اور کشتی پر ’جہنم‘ جیسے حالات بیان کیے جہاں کھانے کو خوراک اور پینے کو پانی تک میسر نہیں تھا۔

یونان کے ساحل کے قریب ڈوبنے والی کشتی کے حادثے میں چند بچ جانے والے پناہ کے متلاشیوں نے بتایا کہ یونانی کوسٹ گارڈ کا کشتی کو کھینچنا ممکنہ طور پر حادثے کا باعث بنا۔

پناہ کے متلاشیوں کے مطابق 14 جون کی صبح کشتی ڈوبنے کے المناک انجام میں یونانی کوسٹ گارڈ کی کارروائیوں کا عمل دخل بھی شامل تھا جنہوں نے مبینہ طور پر اوورلوڈ کشتی کو کھینچنے کی کوشش کی تھی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز ان پناہ کے متلاشیوں نے سمگلروں کے ظلم و ستم اور کشتی پر ’جہنم‘ جیسے حالات بیان کیے جہاں کھانے کو خوراک اور پینے کو پانی تک میسر نہیں تھا۔

سانحے کی وجوہات کی تحقیقات کرنے والے یونانی عدالتی حکام کو پیش کیے گئے نو بیانات میں سے چھ میں کوسٹ گارڈ کی اس کوشش کا ذکر کیا گیا ہے۔

حادثے میں زندہ بچ جانے والے شامی شہری نے بتایا کہ جب وہ اور دیگر پناہ کے متلاشی ایڈریانا پر سوار تھے تو یونانی کوسٹ گارڈ کے جہاز نے ان کی کشتی سے رسی باندھی اور رفتار کو بڑھاتے ہوئے اسے کھینچنا شروع کر دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس عمل میں پناہ کے متلاشیوں کی کشتی بائیں اور دائیں جھکی اور پھر وہ الٹ گئی۔

تین دیگر گواہوں نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ ایڈریانا کے الٹنے کی وجہ کیا ہے۔

روئٹرز نے ان نو زندہ بچ جانے والوں کے نام شائع نہیں کیے جنہوں نے عدالتی کارروائی میں اپنے بیانات درج کرائے۔

چھ گواہوں کے بیانات یونانی کوسٹ گارڈ اور حکومت کی طرف سے دیے گئے عوامی بیانات سے متصادم ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ کشتی کو کھینچنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی تھی اور یہ اس وقت الٹ گئی جب کوسٹ گارڈ اس سے تقریباً 70 میٹر کے فاصلے پر تھے۔

جہاز رانی کی وزارت نے روئٹرز کو بتایا کہ وہ ان امور پر تبصرہ نہیں کر سکتی جو عدالتی کارروائی اور جاری تحقیقات کا حصہ تھے۔

نو زندہ بچ جانے والوں نے 17 اور 18 جون کو اپنے بیانات تفتیش کاروں کو درج کرائے جو حادثے کی ابتدائی تحقیقات کر رہے تھے۔

’ٹوئیگ‘ کے ذریعے کشتی الٹنے کا واقعہ دو دیگر زندہ بچ جانے والوں نے بھی بیان کیا گیا تھا جن کا الگ الگ انٹرویو روئٹرز نے کیا تھا تاہم یونانی حکام کی طرف سے انتقامی کارروائی کے خوف سے انہوں نے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی تھی۔

ان میں سے ایک، جنہوں نے اپنا نام صرف محمد بتایا، نے وہ خوفناک لمحات بیان کیے جو ان کے بقول اس وقت آئے جب کوسٹ گارڈ نے کشتی کو کھینچنا شروع کیا۔

محمد نے بتایا: ’انہوں نے ہماری کشتی کو تیزی سے کھینچ لیا اور کشتی الٹ گئی۔ یہ دائیں اور بائیں جھکی اور دائیں طرف الٹ گئی جس سے لوگ ایک دوسرے پر گرنے لگے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’لوگ ایک دوسرے کے اوپر تھے، وہ چیخ رہے تھے اور وہ ڈوب رہے تھے۔ ہر طرف رات کی تاریکی تھی اور لہریں تھیں۔ یہ خوفناک منظر تھا۔‘

15 جون کو کوسٹ گارڈ کے ترجمان نے مقامی میڈیا کی رپورٹس کا جواب دیتے ہوئےعوامی طور پر اس بات کی تردید کی تھی کہ کوسٹ گارڈ کے جہاز نے کسی بھی وقت ایڈریانا کو باندھ کر کھینچنے کی کوشش کی تھی۔

لیکن ایک دن بعد ہی کوسٹ گارڈ نے اپنے پہلے بیان میں ترمیم کرتے ہوئے کہا کہ ان کے جہاز نے ایک رسی ایڈریانا کے ساتھ جوڑ دی تھی تاکہ اسے بات چیت کے قریب آنے میں مدد ملے۔

تاہم کوسٹ گارڈ نے اس بات سے انکار کیا کہ بعد میں ٹرالر کو کھینچنے کی کوشش کی تھی۔

یونانی کوسٹ گارڈ کے ایک ریٹائرڈ ایڈمرل نیکوس سپانوس نے روئٹرز کو بتایا کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں تھا کہ کوسٹ گارڈ کے جہاز نے اس طرح کے خطرناک ہتھکنڈے کی کوشش کی ہو گی۔

انہوں نے کہا: ’ان (کوسٹ گارڈز) کا مقصد جہاز کی مدد اور صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے ایک بہتر رابطہ قائم کرنا تھا۔ یہ میری سوچ ہے کیوں کہ اگر وہ اسے یا کوئی اور چیز کو کھینچنے کی کوشش کرتے تو یہ بہت خطرناک ہوتا۔‘

'کوئی مدد نہیں، اٹلی جاؤ'

اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کا کہنا ہے کہ ایڈریانا یونان کے سرچ اینڈ ریسکیو کے دائرہ اختیار کے اندر بین الاقوامی پانیوں میں پائلوس کے جنوب مغرب میں 47 میل کے فاصلے پر ڈوب گئی اور اس میں 400 سے 750 کے درمیان پناہ کے متلاشی سوار تھے جن میں سے زیادہ تر شام، مصر اور پاکستان سے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مجموعی طور پر 104 افراد زندہ بچے لیکن امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ بحیرہ روم کے اس گہرے حصے سے مزید کسی کے زندہ یا مردہ برآمد ہونے کا امکان نہیں ہے۔

کوسٹ گارڈ کے جہاز کا لاگ بھی عدالتی حکام کو پیش کیا گیا تھا اور شواہد کے مطابق کوسٹ گارڈ کے جہاز نے ایڈریانا کے قریب پہنچنے پر دو گھنٹے کے وقفے سے دو واقعات کی تفصیلات دی تھیں۔

رات 11:40 پر لاگ میں بتایا کہ 13 جون کو یونانی جہاز ٹرالر کے قریب پہنچا جس کا انجن خراب تھا اور کشتی کو رسی سے باندھ دیا تاکہ وہ قریب آ سکے اور جہاز میں موجود لوگوں سے صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے بات کر سکے اور یہ دیکھنے کے لیے کہ انہیں مدد کی ضرورت تو نہیں۔

اس لاگ کے مطابق، جس میں کہا گیا تھا کہ ایڈریانا کا انجن پھر سے شروع ہوا اور وہ مغرب کی طرف چلا گیا، یونانی جہاز میں موجود لوگوں نے ’کوئی مدد نہیں‘ اور ’اٹلی جاؤ‘ جیسے نعرے لگائے۔

پھر صبح 1:40 بجے کوسٹ گارڈ کے جہاز کو آپریشن سینٹر نے ٹرالر پر واپس آنے کی ہدایت کی تاکہ ایڈریانا کی حرکت بند ہونے کے بعد اس کی حالت کا معائنہ کیا جا سکے۔

لاگ ان کے مطابق کوسٹ گارڈ کا جہاز ایڈریانا سے تقریباً 70 میٹر کے فاصلے پر پہنچا اور بہت زیادہ چیخ و پکار سنائی دی۔

اور سات منٹ کے اندر اندر ٹرالر الٹ گیا۔

شواہد کے مطابق ایک شامی پناہ کے متلاشیوں نے عدالتی حکام کو بتایا کہ کشتی ہر مسافر کے پاس صرف 40 سینٹی میٹر جگہ تھی۔

تمام 11 زندہ بچ جانے والوں نے بتایا کہ انہوں نے اس سفر کے لیے ساڑھے چار ہزار اور چھ ہزار ڈالر کے درمیان ادائیگی کی اور سمگلروں نے انہیں بتایا تھا کہ وہ تین دن میں اٹلی پہنچ جائیں گے۔

تین زندہ بچ جانے والوں نے حکام کو بتایا کہ انہوں نے بیرونی ڈیک پر محفوظ سمجھی جانے والی جگہوں کے لیے 50 سے 200 یورو تک اضافی ادائیگی کی۔

وہ ان ہزاروں لوگوں میں شامل تھے جو اس سال شمالی افریقہ سے کشتیوں میں سوار ہو کر جنوبی یورپ جانے کی کوشش کر رہے تھے۔

یورپی یونین کی سرحدی ایجنسی کے اعداد و شمار کے مطابق وسطی بحیرہ روم کی زیادہ ’بے قاعدہ سرحدی‘ کراسنگ زیادہ تر تیونس اور لیبیا سے شروع ہوتی ہیں اور 2023 کے پہلے پانچ مہینوں میں پتہ چلا کہ 50 ہزار افراد ان سرحدی کراسنگ تک پہنچے جو ایک سال پہلے کے مقابلے میں 160 فیصد زیادہ ہے۔

یونان کے قریب اس سانحے کے ایک ہفتے بعد سپین کے کینری جزائر کی طرف جانے والی ڈنگی کے ڈوبنے سے 30 سے زائد پناہ کے متلاشیوں کی اموات کا خدشہ ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا