وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ یونان کے ساحل کے قریب ڈوبنے والی کشتی پر کم از کم 350 پاکستانی سوار تھے۔
جمعے کو قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ 400 افراد کی گنجائش والی ماہی گیری کی کشتی پر 700 سے زیادہ لوگ سوار تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجموعی طور پر 281 پاکستانی خاندانوں نے مدد کے لیے حکومت سے رابطہ کیا تھا۔
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ مزید 193 پاکستانی خاندانوں نے ڈی این اے ٹیسٹ کرائے ہیں تاکہ بحیرہ روم میں ڈوبنے والے افراد کی شناخت کی جا سکے۔
بیس سے تیس میٹر لمبی ماہی گیری کی کشتی پر مصر، شام اور پاکستان سمیت دیگر ممالک کے سینکڑوں افراد سوار تھے جب چند روز قبل یہ جنوبی یونان کے قصبے پائلوس سے 50 میل دور بحیرہ روم میں ڈوب گئی۔
حالیہ مہینوں میں پاکستان کی معاشی بدحالی سے مزید لوگ اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر بہتر مستقبل کی تلاش میں یورپ کا رخ کر رہے ہیں۔
پاکستان کی حکومت نے کہا ہے کہ کئی انسانی سمگلروں اور ان کے ایجنٹوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جنہوں نے حکام کو بتایا کہ ان کا سرغنہ لیبیا میں موجود ہے۔
پاکستانی حکام نے بتایا کہ ان انسانی سمگلروں نے دبئی، مصر اور لیبیا تک قانونی سفر کے بعد سمندری راستے سے غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے افراد سے فی کس تقریباً آٹھ ہزار ڈالر وصول کیے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کی شناخت اور گرفتاری کے لیے اعلیٰ سطحی انکوائری جاری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایسے معاملات میں خامیوں کو دور کرنے اور سزا کو یقینی بنانے کے لیے قانون میں ترامیم کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ نے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پانچ سال سے زیادہ عرصے سے کسی ایک بھی انسانی سمگلر کو سزا نہیں دی گئی۔
’ایسا زیادہ تر متاثرین کے خاندانوں کی جانب سے رقم کے بدلے معافی پر رضامندی کی وجہ سے ہوا۔‘