میانوالی کے موتیے کے پھولوں کے روائتی ہار جو ’صرف مرد پہنتے تھے‘ انہیں بنانے والے اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔
لیکن انہیں پہننے کے شوقین ہر عمر کے افراد خصوصاً نوجوان یہاں کافی مل جاتے ہیں۔
تقسیم سے قبل میانوالی میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ آباد کاری میں کچھ رواج پروان چڑھے اور تقسیم کے بعد ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں آج بھی مروج ہیں۔
انہیں میں سے ایک ریت موتیا ہار کے استعمال کی بھی ہے۔
قدیم وقتوں میں کالا باغ ہندو اکثریتی علاقہ تھا جہاں پھولوں کے باغات کی بہتات کی وجہ سے ہندو مذہبی رسموں اور تہواروں میں خواتین کے علاوہ مندروں میں پوجا پاٹ کی خاطر جانے والے مرد خوشبودار موتیا کے ہار پہنتے تھے۔
یوں قدیم وقتوں میں یہ سلسلہ چل نکلا اور دیکھا دیکھی مسلمان بھی مذہبی تہواروں میں نئے کپڑوں کےساتھ خوشبو کے لیے ان ہاروں کا استعمال کرنے لگے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان بننے کے بعد یہ رواج سمٹ کر کالاباغ تک ہی محدود ہو گیا اور اب تک جاری ہے۔
یہ ہار مکمل طور پہ ہاتھ کی محنت سے تیار ہوتے ہیں۔
یہ ہار بڑی نفاست سے تازہ چُنے گئے خوشبودار موتیے کے پھولوں سے پتلے دھاگے میں چمکیلے کاغذوں یا سرخ گلاب کی پتیوں کے ساتھ پروۓ جاتے ہیں۔
ان ہاروں کی پسندیدگی میں ایک اہم وجہ ان کی تازگی اور دوسرا ان کی پتیاں خراب نہ ہونا ہے۔ یہ دونوں چیزیں برقرار رکھنا مشکل کام ہے۔
باغات کی عدم فراہمی اور آبادی گنجان ہوتے جانے کی وجہ سے آج کل یہ موتیا ہار بہت کم دستیاب ہوتے ہیں۔