شاعر ڈاکٹر آکاش انصاری کی لاش پر گہرے زخموں کے نشان: ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ

سندھ کے مشہور شاعر ڈاکٹر آکاش انصاری کی حیدر آباد میں موت کے بعد ان کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر نے بتایا کہ لاش پر تشدد کے نشان پائے گئے ہیں۔

ڈاکٹر آکاش انصاری بیرون ملک دورے کے دوران (فیس بک/ آکاش انصاری)

سندھ کے مشہور شاعر ڈاکٹر آکاش انصاری کی ہفتے کو حیدر آباد میں موت کے بعد ان کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر نے بتایا کہ لاش پر تشدد کے نشان پائے گئے ہیں۔

رومانوی اور مزاحمتی شاعری کے حوالے سے مشہور شاعر، ادیب اور صحافی ڈاکٹر آکاش انصاری کی آج حیدر آباد میں موت ہو گئی۔

ابتدائی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا کہ وہ گھر میں آتش زدگی کے مبینہ واقعے میں جان سے گئے۔

تاہم سول ہسپتال حیدرآباد میں ان کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر عبدالحمید مغل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’پوسٹ مارٹم کی ابتدائی معلومات کے دوران ڈاکٹر آکاش انصاری کے جسم پر موت سے قبل شدید تشدد ہونے کے ثبوت ملے ہیں۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ ’جسم پر تیز دھار آلے سے گہرے زخم ہیں۔ یہ زخم جسم کے اندر تک ہیں۔ ہڈی بھی ٹوٹی ہوئی ملی۔ ان کی گردن، پیٹ اور پیٹھ پر تیز دھار آلے کے متعدد نشانات نظر آئے۔ 
 
'تیز دھالے آلے کے وار کے علاوہ ان کے جسم کو جلانے کے شواہد بھی ملے۔ ان کی موت ان زخموں سے ہوئی یا جلنے کے باعث یہ تفصیلی رپورٹ میں بتایا جائے گا، جو پیر کو سرکاری طور پر جاری ہوگی۔‘
 
اس سے قبل ڈاکٹر آکاش کے قریبی رشتہ دار جان محمد انصاری نے بتایا تھا کہ ہفتے کی صبح ڈاکٹر آکاش حیدر آباد کی سٹیزن کالونی میں واقع اپنے گھر کے کمرے میں سو رہے تھے، جب کمرے میں آگ لگ گئی۔

’ان کے بیٹے لطیف آکاش نے دروازہ کھول کر آگ بجھائی اور لاش کو سول ہسپتال منتقل کیا گیا۔‘

جان محمد انصاری کے مطابق: ’ابتدائی طور پر ہسپتال میں جمع ہونے والے ان کے رشتہ دار لاش کو ان کے آبائی گاؤں بدین لے جانا چاہتے تھے، مگر جیسے ہی ہمیں معلوم ہوا، تو ہم نے انہیں راستے سے واپس بلایا اور سول ہسپتال حیدرآباد میں ان کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرایا۔‘

’کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آگ سگریٹ سے لگی اور کچھ کا کہنا ہے کہ شارٹ سرکٹ کے باعث آگ بھڑک اٹھی، مگر تاحال آگ لگنے کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ڈاکٹر آکاش کی کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ ہم حکومت سندھ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں کہ آگ اتفاقیہ لگی یا کسی نے لگائی؟‘

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ڈاکٹر آکاش کی موت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے واقعے کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر آکاش کی ادبی اور ثقافتی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ سندھی ادب کے ایک روشن ستارے تھے، جن کی شاعری نے عوام کے دلوں میں جگہ بنائی۔

ان کے انتقال پر صوبائی وزیر ثقافت سندھ سید ذوالفقار علی شاہ، صوبائی وزیر سردار شاہ، آرٹس کونسل آف پاکستان کے صدر احمد شاہ، سندھ ترقی پسند پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی، قومی عوامی تحریک کے صدر ایاز لطیف پلیجو و دیگر سیاسی و سماجی رہنماؤں نے گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ان کی خدمات کو سراہا اور ان کی موت کو سندھ کے لیے بڑا نقصان قرار دیا۔

آکاش انصاری کے سیاسی ساتھی اور قریبی دوست مصطفیٰ تالپور نے ان کو مزاحمتی شاعر کے ساتھ نفیس انسان قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بچپن انتہائی غربت میں گزارا۔

 مصطفیٰ تالپور نے کہا ’ان کی مزاحمتی شاعری نے ضیاالحق کی آمریت میں سیاسی تحریک میں ایک نئی جان ڈالی۔ وہ ایک بہادر انسان اور اچھے دوست تھے۔‘

پولیس کی تحقیقاتی کمیٹی

حیدر آباد پولیس نے ڈاکٹر آکاش کے گھر پر لگنے والی آگ کی حقیقت جاننے کے لیے اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق، سینیئر سپرانٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) حیدرآباد ڈاکٹر فرخ علی نے ایس پی ہیڈکوارٹرز، حیدرآباد مسعود اقبال کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، جو اس واقعے کی تحقیقات کرے گی۔

نوٹیفکیشن کے مطابق کمیٹی تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر ان کی موت کی اصل وجوہات معلوم کرے گی۔

ڈاکٹر آکاش انصاری کون تھے؟

سندھی زبان کے فروغ کے لیے کام کرنے والے سرکاری ادارے سندھی لینگویج اتھارٹی کے ذیلی ادارے انسائیکلوپیڈیا سندھیانا کی ویب سائٹ کے مطابق، ڈاکٹر آکاش انصاری کا اصل نام اللہ بخش انصاری اور تخلص آکاش تھا۔

وہ 1956 میں ضلع بدین کے گاؤں ’ابُل وسی‘ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اللہ ڈنو بدینوی بھی شاعر تھے، جبکہ ان کی والدہ جنت خاتون، شاہ لطیف کی شاعری کی حافظہ تھیں۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم بدین سے حاصل کرنے کے بعد لیاقت میڈیکل کالج جامشورو سے 1984 میں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے کچھ عرصہ بدین میں بطور ڈاکٹر پریکٹس بھی کی۔

وہ کالج کے زمانے سے ہی قومی اور ترقی پسند شاعر کے طور پر مقبول ہو چکے تھے۔

اسی دور میں انہوں نے بائیں بازو کی سیاست میں حصہ لیا اور رسول بخش پلیجو کی سیاسی جماعت ’عوامی تحریک‘ میں 15 سال تک ڈپٹی سیکریٹری اور سیکریٹری جنرل کے طور پر خدمات انجام دیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ضیا الحق مارشل لا کے دوران قومی اور انقلابی شاعری کرنے کے جرم میں ڈاکٹر آکاش انصاری کو جیل بھی جانا پڑا۔

بعد میں جب چار سیاسی جماعتوں نے مل کر عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی بنیاد رکھی، تو عوامی تحریک بھی اس اتحاد کا حصہ بنی۔ اے این پی کے مرکزی صدر خان عبدالولی خان مقرر ہوئے، جبکہ سندھ کے جنرل سیکریٹری کے طور پر ڈاکٹر آکاش انصاری کو نامزد کیا گیا۔

1992 میں انہوں نے عوامی تحریک کو چھوڑ دیا اور 1995 میں صحافت میں قدم رکھا۔

انہوں نے روزنامہ ’سوال‘ اخبار کا اجرا کیا، جس کے چیف ایڈیٹر وہ خود تھے، جبکہ معروف شاعر مرحوم حسن درس ایڈیٹر تھے۔ یہ اخبار جنرل پرویز مشرف کے دور میں 2000 میں بند کر دیا گیا۔

2002 میں، ڈاکٹر آکاش نے رورل ڈیولپمنٹ میں ایم اے کیا۔ پھر 2004 میں ایسٹرن واشنگٹن یونیورسٹی (امریکہ) سے جدید تعلیمی نظام پر ڈپلومہ مکمل کیا۔

اس کے بعد، انہوں نے بدین کے ساحلی علاقوں میں تعلیم اور دیہی ترقی کے لیے ایک سماجی تنظیم ’بدین رورل ڈیولپمنٹ‘ قائم کی اور اس کے تحت کئی منصوبے مکمل کیے۔

ان کے قائم کردہ سکولوں میں سے دو سکول اب ہائی سکول کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔

ان کی شاعری کی دو کتابوں میں سے ’کیسے رہوں جلاوطن‘ کے اب تک آٹھ اور ’ادھورے ادھورے‘ کے چار ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔

ان کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ "An Elegy for the Brave Heart of Tomorrow"  کے عنوان سے ڈاکٹر سحر گل نے 2022 میں کیا ہے۔

آکاش انصاری کے سینکڑوں قومی اور رومانوی گیت عابدہ پروین، صنم ماروی، ماسٹر ولی، دیبا سحر، سرمد سندھی، صادق فقیر سمیت سندھ کے تقریباً تمام مشہور گلوکاروں نے گائے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان