افغان شہری آغا نور فقیری دارالحکومت کابل سے تقریباً 50 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع اپنی چھوٹی سی ورکشاپ میں مٹی کے برتن بناتے ہیں۔
آغا نور فقیری ضلع استالف میں قریہ کلاں گاؤں کے درجنوں کمہاروں میں سے ایک ہیں، لیکن 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بہت سے لوگ مٹی کے برتن بنانا چھوڑ چکے ہیں کیوں کہ خراب معیشت کی وجہ سے ان کی فروخت میں کمی آئی ہے، تاہم فقیری اسے جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔
53 سالہ آغا نور فقیری نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا: ’ایک ایسا کاروبار جو آپ کے والدین، دادا اور پڑ دادا کے زمانے سے چلا آرہا ہے، اسے چھوڑا نہیں جانا چاہیے کیونکہ یہ خاص برکت والا ہے۔
’میرے بچے بھی خاندانی کاروبار سے وابستہ ہیں اور اسے کسی بھی حالت میں برقرار رکھنا اور زوال پذیر ہونے سے روکنا چاہتے ہیں۔‘
افغانستان میں مٹی کے برتن بنانے کی روایت صدیوں پرانی ہے، لیکن دستکاری اور معیار کے لیے استالف کی شہرت نمایاں ہے۔
گاؤں قریہ کلاں کی مرکزی سڑک پر مٹی کے برتنوں کی دکانیں ہیں، جو کاروبار کی کمی کی وجہ سے کم از کم آدھی بند ہیں، لیکن وہ جو اب بھی کھلی ہیں ان میں جگ، برتن، پیالے اور پلیٹوں کا ایک چمکدار سلسلہ دکھائی دیتا ہے۔
اکثر گاہک کابل سے سیروتفریح کے لیے آتے ہیں، جو پہاڑوں یا خوبصورت گاؤں کے آس پاس کے دریاؤں کے کنارے پکنک منانے کے لیے 90 منٹ کا سفر طے کر کے آتے ہیں۔
لیکن بڑے تاجر بھی کبھی کبھار پورے افغانستان اور اس سے باہر کے ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز کے بڑے آرڈر لے کر آتے ہیں۔
اسی گاؤں کے 32 سالہ کمہار عبدالحمید مہران کا کہنا تھا: ’پہلے غیر ملکی آتے تھے اور دوسرے صوبوں کے لوگ استالف دیکھنے آتے تھے کیونکہ یہ سیاحت کے لیے قدیم اور سرسبز مقامات میں سے ایک ہے۔‘
صدیوں پرانی مہارت
مٹی کے برتن اب بھی صدیوں پرانے طریقے سے بنائے جاتے ہیں۔
مہارت کے ساتھ ہاتھ سے کام کرتے وقت آس پاس کے پہاڑوں سے لائی گئی مٹی کمہار کے پاؤں سے گھومنے والے چاکوں پر رکھی جاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: ’میں جو کام کرتا ہوں، وہ میرے لیے فخر کی بات ہے کہ ہم افغانستان میں اس طرح کی چیزیں بناتے ہیں۔‘
کمہار ایک دن میں تقریباً 70 سے 100 مختلف برتن بناتے ہیں، جس کا انحصار طلب پر ہوتا ہے۔ جنہیں ہر ماہ بھٹی میں پکانے سے پہلے جزوی طور پر خشک کیا جاتا ہے۔
کابل سے تعلق رکھنے والے ایک 25 سالہ گاہک شاہ آغا عظیمی نے بتایا: ’میں یہاں بار بار آتا ہوں کیونکہ ہمیشہ نئی اشیا بنائی جاتی ہیں اور وہ اچھے معیار کی ہوتی ہیں۔‘
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ معاشی بحران کی وجہ سے اس کاروبار سے وابستہ 80 میں سے اب صرف 30 خاندان ہی کام کر رہے ہیں۔
اس کے باوجود فقیری جیسے روایت پسند اس کا مقابلہ کرنا چاہیں گے۔
انہوں نے کہا: ’جب میں بند دکانیں دیکھتا ہوں تو میرا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر دکان کھلی رہے اور ہمارا کاروبار دن بہ دن بہتر ہو۔‘
فقیری کے مطابق: ’بازار میں تجارت دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ کام کرتے وقت اپنے دل میں گرم جوشی محسوس ہوتی ہے۔‘