صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی مدتِ صدارت نو ستمبر کو پوری ہو رہی ہے۔ لیکن موجودہ اسمبلیوں کی تحلیل اور انتخابات میں مبینہ تاخیر کے امکان کے پیشِ نظر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اگلے صدر کا انتخاب کیسے ہو گا؟
اس سوال کا پس منظر یہ ہے کہ پاکستانی صدر کا انتخاب الیکٹورل کالج کرتا ہے، جس میں چاروں صوبائی اسمبلیاں، سینیٹ اور قومی اسمبلی شامل ہیں۔ لیکن قومی اسمبلی آج تحلیل ہو جائے گی، جب کہ دو صوبوں میں پہلے ہی سے نگران حکومتیں کام کر رہی ہیں جب کہ بقیہ دو بھی تحلیل ہو جائیں گی۔
تو ایسی صورتِ حال میں نئے صدر کا انتخاب کیسے ہو گا؟ اس سوال کا جواب ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نئے صدر کے انتخاب تک صدارتی منصب پر برقرار رہیں گے۔
نئے صدر کا انتخاب آئین کے آرٹیکل 41 کے تحت انتخابی عمل پورا ہونے کے بعد ہی ہو گا اور نو ستمبر کو صدر مملکت پانچ سال اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد سبک دوش نہیں ہوں گے بلکہ آئین کے آرٹیکل 44 کے تحت اس وقت تک صدر مملکت کے عہدے پر فائز رہیں گے جب تک نئے صدر کا انتخاب نہیں ہو جاتا۔
آئین کے آرٹیکل 44 کے مطابق چیئرمین سینیٹ قائم مقام صدر مملکت کا عہدہ نہیں سنبھال سکتے۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی نو ستمبر 2018 کو صدر منتخب ہوئے تھے۔ آئینی تسلسل کے تحت صدر، چیئرمین سینٹ اور سپیکر قومی اسمبلی اپنی مدت ختم ہونے کے باوجود نئے عہدیداران کے انتخاب تک اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔
چیئرمین سینیٹ اس وقت قائم تمام صدر بن سکتے ہیں جب صدر مملکت بیرونِ ملک ہوں یا بیمار یا رخصت پر ہوں یا پھر اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔
ملک میں عام انتخابات کا انتخابی شیڈول الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 57 کے تحت جاری کرنا ہے۔ اسی دوران صدارتی انتخاب کے لیے الیکٹورل کالج ہی موجود نہیں، لہٰذا عام انتخابات کے بعد جب قومی اور صوبائی اسمبلیاں وجود میں آ جائیں گی تبھی صدر کا انتخاب ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چونکہ نئی مردم شماری کے نتیجہ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی اسمبلی کی 266 اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی 593 نشستوں پر ازسرنو حلقہ بندیاں کرانا ہوں گی جس کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو چار سے چھ ماہ تک عرصہ درکار ہو گا، لہٰذا الیکشن چند مہینوں کی تاخیر کے بعد ہی ہو سکیں گے۔
جاتی ہوئی اسمبلی کی پھرتیاں
عوامی نمائندوں کی پارلیمنٹ قومی اسمبلی اور سینٹ سے درجنوں بل یک مشت منظور ہوئے مگر کوئی ان عوامی نمائندوں سے پوچھے کہ کیا اس میں کوئی عوامی مفاد کا بل بھی تھا؟
بلوں کی اکثریت مشترکہ ذاتی مفادات یا پھر مخصوص سیاسی جماعت کو فوائد حاصل کرنے کے لیے پارلیمنٹ کاسہارا لیا گیا۔
اتحادی حکومت کے آخری چند دنوں میں قومی اسمبلی اور سینٹ نے جس سرعت کے ساتھ قانونی مسودے منظوری کے عمل سے گذرے ہیں اس میں سے ایک طرف ان کے سرد خانے سے نکالے جانے کا تاثر ملتا ہے تو دوسری طرف قانونی ماہرین خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ یہ عجلت نئے قوانین میں دشواری کا باعث بن سکتی ہے۔
ان کے مطابق یہ تمام بل صرف دو روز میں منظور کیے گئے اور ان 53 بلوں کا مطالعہ کرنے کا وقت بھی نہیں دیا گیا۔
ان کی عجلت پسندی اور ذاتی مفادات پر مشتمل بلوں کی منظوری سے عوام کا پارلیمانی نظام پر ہی سے اعتماد اٹھ رہا ہے۔ جمہوریت کی رو سے پارلیمان کسی ملک کا وہ معزز ترین کلیدی ادارہ ہے جہاں منتخب عوامی نمائندے قوم کے بہترین مفاد میں ہر طرح کے نقائص سے پاک انصاف پر مبنی نظام وضع کرتے ہیں۔
پاکستان کی موجودہ اسمبلی نے جس کی مدت نو اگست کو ختم ہو رہی تھی ان پانچ برسوں میں اب تک 209 قانونی مسودے منظور کیے ہیں جس کے مطابق پہلے سال میں 10، دوسرے برس 130، تیسرے سال60، چوتھے سال 56 جب کہ پانچویں اب تک یہ تعداد 53 ہے۔
اس 15 ویں قومی اسمبلی نے جیسے بھی مشکلات حالات میں اپنی آئینی مدت پوری کی لیکن انتہائی حد تک ہونے والی سیاسی جماعتوں کی افسوس ناک کشمکش میں عوامی تقاضوں کے حامل متعدد بل سرد خانہ میں پڑے رہنا باعثِ تشویش ہے اور ان پانچ سالوں میں پارلیمنٹ عوام کے اعتماد پر پوری نہیں اتری۔
وزیراعظم شہباز شریف نے نو اگست کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی تاریخ دے دی ہے اور آئین کے آرٹیکل 48 (4) کے تحت قومی اسمبلی تحلیل کرتے ہیں تو صدر مملکت 90 روز میں انتخاب کرانے کی تاریخ مقرر کرنے کے بھی مجاز ہیں اور آئین کے آرٹیکل 224(A) کے تحت نگران وزیراعظم اور ان کی کابینہ کی تشکیل کرنے کے بھی مجاز ہوں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ انتخابی جنگ میں سیاست دان اپنے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر صورت میں انتخاب میں کامیابی کے لیے قانون کو نظر انداز کراتے آئے ہیں۔
آئین کے آرٹیکل 48 (4) کے تحت وزیراعظم پاکستان اسمبلی کی تحلیل کے لیے صدر مملکت کو ایڈوائس دینے کے آئینی طور پر با اختیار ہیں۔ وزیراعظم نے ذو معنی طور پر اہم نکتہ بھی بیان کر دیا ہے کہ آرمی چیف نے ملکی ترقی کے لیے بڑی کاوش کی ہے۔
الیکشن کے بعد نئے سیٹ اپ کے لیے زندگی یا موت کا معاملہ ہو گا، یہ حقیقت ہے کہ انتخابی جنگ میں سیاست دان اپنے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر صورت میں انتخاب میں کامیابی کے لیے قانون کو نظر انداز کراتے آئے ہیں۔
مشترکہ مفادات کونسل نے نئی مردم شماری کی متفقہ منظوری دے دی، اب الیکشن میں تاخیر کا امکان ہے۔ الیکشن کمیشن کو پورے ملک کے انتخابی حلقوں کی ازسرِنو حلقہ بندیاں کرانی ہوں گی جو آئین کے آرٹیکل 15 (5) کے تحت لازمی ہے۔
قومی اسمبلی میں صوبوں کی موجودہ نشستوں کا حصہ وہی رہے گا اور آئین کے آرٹیکل 51(3) پر اثرانداز نہیں ہو گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات اور تجزیے پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔